البحث

عبارات مقترحة:

الوهاب

كلمة (الوهاب) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعّال) مشتق من الفعل...

الشافي

كلمة (الشافي) في اللغة اسم فاعل من الشفاء، وهو البرء من السقم،...

العظيم

كلمة (عظيم) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وتعني اتصاف الشيء...

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: غزوۂ خندق کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے، قبیلۂ قریش کے حبان بن عرقۃ نامی ایک شخص نے - جو کہ قبیلۂ معیص بن عامر بن لؤی سے تعلق رکھنے والا حبان بن قیس ہے - ان پر تیر مارا، اس نے انہیں بازو کی بڑی رگ میں تیر مارا تھا، تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگوایا تاکہ آپ قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔ پھر جب آپ غزوۂ خندق سے واپس ہوئے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہ اپنے سر سےگرد و غبار جھاڑ رہے تھے۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ نے ہتھیار رکھ دیے؟ اللہ کی قسم ! ہم نے اسلحہ نہیں اتارا، ان کی طرف نکلیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ: ’’کہاں؟‘‘ تو انہوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کے پاس پہنچے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر اتر آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ان کا حکَم بنا یا، چناں چہ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ان کے بارے میں فیصلہ کر تاہوں کہ ان کے جنگ جو افراد قتل کر دیے جائیں، عورتیں اور بچے قید کر لیے جائیں اور ان کے اموال تقسیم کر لیے جائیں۔ ہشام نے بیان کیا کہ پھر مجھے میرے والد نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ سعد رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی تھی: ’’اے اللہ! تو جانتا ہے کہ مجھے تیرے راستے میں، اس قوم کے خلاف جہاد سے بڑھ کر کسی کے خلاف جہاد کرنا محبوب نہیں جنہوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور انہیں نکال باہر کیا۔ اے اللہ! میں سمجھتا ہوں کہ اب تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کو ختم کر دیا ہے۔ پس اگر قریش کی جنگ کچھ باقی رہ گئی ہو تو مجھے اس کے لیے باقی رکھ تاکہ میں ان سے تیرے راستے میں جہاد کروں، اور اگر لڑائی تو نے ختم کر دی ہے تو اسی زخم کو جاری کرکے اسے میری موت کا سبب بنادے۔ چناں چہ ان کے سینے کا زخم پھوٹ کر بہنے لگا، مسجد میں بنو غفار کا بھی ایک خیمہ تھاـ وہ یہ دیکھ کر چونکے کہ ان کی جانب خون بہہ کر آ رہا ہے۔نے ہی خوف زدہ کر دیاجو ان کی طرف بہ رہا تھا، انہوں نے پوچھا: اے خیمے والو! یہ کیا ہے جو تمہاری جانب سے ہماری طرف آرہا ہے؟ دیکھا تو سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے خون کی دھار رواں تھی۔ پھر اسی سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ اللہ ان سےراضی ہو۔

شرح الحديث :

حدیث شریف میں صحابیٔ جلیل سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان ہے، اس طور پر کہ دورانِ جہاد وہ زخمی ہو گئے تو ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگایا گیا تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کر سکیں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے بنو قریظہ کے بارے میں جو فیصلہ دیا وہ فیصلہ ساتوں آسمانوں کے اوپر سے ان کے بارے میں اللہ کے فیصلے کے عین موافق تھا، اور وہ یہ کہ جتنے لوگ ان کے جنگ کرنے کے قابل ہیں وہ قتل کر دیے جائیں، ان کی عورتیں اور بچے قید کر لیے جائیں اور ان کا مال ضبط کر لیا جائے، اور یہ سب کچھ مسلمانوں کے ساتھ ان کی خیانت اور عہد شکنی اورخندق کے جنگی حالات اور قریش کے مدینہ کے اطراف جم گھٹے سے غلط فائدہ اٹھانے کے سبب تھا۔ سعد رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری فضیلت ان کی دعا سے آشکار ہوتی ہے کہ اللہ تعالی انہیں باحیات رکھے اگر قریش اور مسلمانوں کے مابین لڑائی ابھی باقی ہو اور اگر قریش کے ساتھ مسلمانوں کی لڑائی اپنی انتہاء کو پہنچ گئی ہے تو میرے ان زخموں کو پھر سے ہرا کر دے جو خندق کے دن مجھے لاحق ہوئے اور اسی میں میری موت واقع کر دے۔ (اور ایسا ہی ہوا)


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية