المؤخر
كلمة (المؤخِّر) في اللغة اسم فاعل من التأخير، وهو نقيض التقديم،...
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مجھے مسجدوں کو بلند بنانے کا حکم نہیں دیا گیا“، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ تم مسجدوں کو اسی طرح آراستہ کرو گے جس طرح یہود ونصاری نے آراستہ کیا ہے ۔
یہاں مساجد کو آراستہ کرنے سے مراد انہیں بلند اور بڑا بنانا ہے جیسا کہ امام بغوی رحمہ اللہ نے کہا ہے اور مساجد کو آراستہ وپیراستہ کرنے میں مبالغہ سے کام لینا جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ یہود ونصاری کا شیوہ رہا ہے۔ رہا مسجد کو بلند بنانا اور اس کی عمارت کو مستحکم ومضبوط کرنا بغیر زیب و زینت اور سجاوٹ کے جس سے اس کی بناوٹ مضبوط رہے تو یہ مکروہ نہیں ہے، جب تک کہ اس میں شیخی، ریاکاری اور شہرت نہ ہو، جیسا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے: ”جس کسی نے اللہ کے لیے کوئی مسجد تعمیر کی، تو اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں اسی کے مثل ایک گھر بنائے گا“۔ نبی ﷺ کی مسجد کچی اینٹ اور اس کی چھت کھجور کی شاخ اور اس کے ستون کھجور کے تنوں کی تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا تھا، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کی لکڑی اورکھجور کی شاخ بوسیدہ ہو گئی تو اسے پہلے کی طرح تعمیر کرادی اور اس میں تھوڑا اضافہ کردیا، اور جب عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو اس میں بہت زیادہ اضافہ کردیا گیا، انہوں نے اس کی دیواروں کو پتھروں اور چونا سے پلاستر کرا دیا، اس کے ستون پتھروں سے اور چھت ساگوان کی لکڑی سے بنوا دی، اور اس میں فائدہ مند چیزیں مضبوطی کے لیے ڈال دیں جس کا مقصد سجاوٹ نہیں، بلکہ مضبوطی کے لیے ایسا کیا تھا، اور چونے کا پلستر بغیر زیب وزینت کے تھا۔ اور رہا نقش ونگار والے پتھروں کا معاملہ تو اسے ان کے حکم سے نقش نہیں کیا گیا تھا بلکہ نقش و نگار والا پتھر ہی انہیں ملا تھا، اور جن صحابہ نے ان پر نکیر کی تھی ان کے پاس منع کرنے کی کوئی دلیل نہیں تھی اِلاّ یہ کہ وہ انہیں نبی ﷺ اور عمر رضی اللہ عنہ کی طرح مسجد کی تعمیر بغیر سجاوٹ کے کرنے پر ابھارا تھا اور یہ مساجد کی مستحکم تعمیر کرنے کے سلسلہ میں ممانعت وکراہت کی متقاضی نہیں ہے۔