البحث

عبارات مقترحة:

التواب

التوبةُ هي الرجوع عن الذَّنب، و(التَّوَّاب) اسمٌ من أسماء الله...

اللطيف

كلمة (اللطيف) في اللغة صفة مشبهة مشتقة من اللُّطف، وهو الرفق،...

الحسيب

 (الحَسِيب) اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على أن اللهَ يكفي...

عباده بن صامت رضي الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ کے پیچھے نمازِ فجر پڑھ رہے تھے۔ آپ نے قرأت شروع کی مگر آپ کے لیے (قرآن) پڑھنا مشکل ہو گیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ نے فرمایا: ’’شاید تم اپنے امام کے پیچھے (کچھ) پڑھتے ہو؟‘‘ہم نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! یہی بات ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’(امام کے پیچھے) سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی‘‘۔

شرح الحديث :

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: (كنا خلف النبي في صلاة الفجر فقرأ، فثقلت)۔ یعنی آپ کے لیے قرأت کرنا مشکل ہو گیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟ اس پرصحابہ کرام نے جواب دیا کہ جی ہاں، یا رسول اللہ!۔ گویا کہ نبی پر تلاوت کرنا مشکل ہو رہا تھا لیکن آپ کو اس کی وجہ معلوم نہ تھی اسی لیے آپ نے صحابہ سے پوچھا۔ جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: کیا بات ہے کہ میں قرآن کی تلاوت میں الجھ رہا ہوں؟ ہو سکتا ہے کہ اس بوجھل پن کا سبب اس نقص کی وجہ سے ہو جو ان کے آپ کی قرأت پر اکتفا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔ اور کامل شخص اپنے پیچھے موجود لوگوں کے نقص کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔ سنت یہ ہے کہ مقتدی خاموشی سے پڑھے بایں طور کہ ہر کوئی اپنے آپ کو سنائے۔ نماز میں سورہ فاتحہ کی قرأت اکیلے نماز پڑھنے والے، امام اور مقتدی سب پر واجب ہے چاہے نماز سری ہو یا جہری کیونکہ بطورخاص سورہ فاتحہ پڑھنا دلائل سے ثابت ہے۔ پھر آپ نے صحابہ کرام کو ہدایت فرمائی کہ وہ سورہ فاتحہ پڑھنے کا اہتمام کریں: ''صرف سورہ فاتحہ پڑھا کرو''۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں ممانعت جہرا پڑھنے سے ہو اور ہو سکتا ہے کہ ممانعت کا تعلق فاتحہ سے زائد پڑھنے کے ساتھ ہو۔ یہ حکم اس لیے دیا تاکہ امام اور نمازی حضرات تشویش میں نہ پڑیں۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية