المجيد
كلمة (المجيد) في اللغة صيغة مبالغة من المجد، ومعناه لغةً: كرم...
اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور اس فتنے کا ذکر فرمایا، جس کے ذریعے آدمی کی اس کی قبر میں آزمائش ہو گی۔ نبی ﷺ نے جب اس کا ذکر کیا، تو مسلمانوں نے اونچی آواز سے گریہ شروع کر دیا، جس کی وجہ سے میں رسول اللہ ﷺ کی بات نہ سن سکی۔ جب ان کے رونے کی آواز تھمی، تو میں نے اپنے قریب موجود ایک شخص سے پوچھا کہ اے فلاں! اللہ تجھے برکت دے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی گفتگو کے آخر میں کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "مجھے وحی آئی ہے کہ تم قبروں میں آزمائش میں ڈالے جاؤگے، مسیح دجال کی آزمائش کی مانند"۔
اسما بنت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ ﷺ انھیں نصیحت فرما رہے تھے اور آخرت کے دن کی یاد دہانی کرا رہے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے قبر اور اس کے احوال کا ذکر شروع فرما دیا۔ آپ ﷺ نے قبر کے امتحان کے فتنہ کا بھی ذکر کیا۔ قبرکے فتنے سے مراد دو فرشتوں یعنی منکر اور نکیر کا بندے سے اس کے رب، اس کے نبی اور اس کے دین کے بارے پوچھنا ہے۔ اس سوال و جواب کو فتنے کا نام اس لیےدیا گیا، کیونکہ یہ ایک بڑا آزمائش ہوگی، جس سے بندے کے ایمان اور یقین کا امتحان لیا جائے گا۔ جسے اس امتحان میں صحیح جواب دینے کی توفیق مل گئی، وہ کامیاب ہو گیا اور جو ناکام رہا وہ ہلاک ہوگیا۔ جب آپ ﷺ نے اس بات کا ذکر فرمایا، تو مسلمان قبر کے اس فتنے کے خوف سے چیخ اٹھے۔ اس شور کی وجہ سے اسما رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی گفتگو نہ سن سکیں۔ جب آواز تھمی، تو اسما رضی اللہ عنہا نے اپنے قریب بیٹھے ایک شخص سے دریافت کیا کہ اے فلاں! بارک اللہ لک، رسول اللہ ﷺ نے اپنی گفتگو کے آخر میں کیا فرمایا تھا؟ اس شخص نے آپ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی طرف وحی کی ہے کہ عنقریب لوگوں کی قبروں کے اندر آزمائش ہو گی، دجال کی آزمائش کی طرح۔ یعنی جس طرح دجال کا فتنہ بڑا سخت اور مشکل ہو گا، اسی طرح قبر کا فتنہ بھی۔