المجيد
كلمة (المجيد) في اللغة صيغة مبالغة من المجد، ومعناه لغةً: كرم...
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی دو نمازوں میں سے ایک نماز – محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میرا غالب گمان ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی- دو رکعت پڑھی، پھر سلام پھیرديا، پھر آپ ﷺ مسجد کے اگلے حصے میں نصب شدہ لکڑی کے ساتھ جا کھڑے ہوئے اور اپنا ہاتھ اس پر رکھ لیا۔ لوگوں میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی موجود تھے، لیکن وہ دونوں آپ ﷺ سے بات کرنے سے ڈرے، اور جلدباز لوگ (مسجد سے) باہر نکلے اور کہنے لگے: کیا نماز کم کردی گئی ھے؟ ان ميں ایک شخص جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کہتے تھے، اس نے کہا: (اے اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم) کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئی ھے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: "نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز ميں کمى كى گئی ہے۔ ذوالیدین نے کہا: كيوں نہیں، يقيناً آپ بھول گئے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر سلام پھیرا، پھر تکبیر کہہ كر اپنے معمول کے سجدوں کی طرح یا اس سے بھی لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور تکبیر كہی، پھر اپنا سر زمين پر ركها اور تکبیر كہی اور اپنے معمول کے سجدوں کی طرح یا اس سے بھی لمبا سجدہ کیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور تکبیر كہی۔''
اس حديث میں يہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر نمازی بھول کر اپنی نماز ميں کوئی کمی کر دے تو وہ کيا کرے؛ اسے چاہيے کہ وہ اپنی بقیہ نماز پوری کرے، پھر سلام پھیر دے، اس کے بعد سہو کے دو سجدے کرے، جو نماز ميں واقع ہونے والی کمی کو پورا کر دیں گے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھيوں کو ظہر يا عصر کي نماز پڑهائی۔ جب آپ ﷺ نے پہلی دو رکعتیں پڑھ لیں تو سلام پھیر دیا۔ لیکن چونکہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم انسان کامل تھے، آپ کے دل کو صرف مکمل عمل ہی سے اطمئنان حاصل ہوتا تھا، آپ کو نماز ميں کچھ کمی وخلل کا احساس ہوا، ليکن آپ کو اس کا سبب معلوم نہ تھا۔ چنانچہ آپ بے قرار دل کے ساتھ مسجد میں نصب ایک لکڑی کے ساتھ جا کھڑے ہوئے اور اس سے ٹيک لگا لیا، اور اپنے ایک ہاتھ کی انگليوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں ميں داخل کیا۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم کو ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی چيز رہ گئی ہے جس کو آپ نے مکمل نہيں کيا ہے۔ جلدباز نمازی مسجد کے دروازوں سے نکل گئے اور وہ آپس ميں سرگوشی کر رہے تھے کہ کوئی معاملہ پیش آیا ہے اور وہ یہ کہ نماز کم کردی گئی ہے، گويا کہ وہ يہ سمجھ رہے تھے کہ نبی ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ عليہ وسلم پر نسیان نہيں طاری ہو سکتی۔ اور ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ عليہ وسم کی ہیبت کیوجہ سے کسی کی ہمت نہيں ہوئی کہ اس معاملہ میں آپ سے زبان کھولے، حالانکہ ان میں ابو بکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے ساتھيوں ميں ایک شخص، جسے لوگ ذوالیدین کہتے تھے، اس چپی کو توڑتے ہوئے عرض کيا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئی؟ تو آپ ﷺ نے - اپنے گمان کے مطابق - فرمایا: نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کم ہوئی ہے۔ اس وقت جب ذواليدين کو معلوم ہوگیا کہ نماز کم نہيں کی گئی ہے اور ان کو یقین تھا کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے صرف دو ہی رکعتیں پڑھی ہیں، تو وہ سمجھ گئے کہ آپ ﷺ بھول گئے ہیں، لہٰذا انہوں نے کہا : بلکہ آپ بھول گئے ہيں۔ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ذو الیدین کی خبر کی صحت کی تاکید کے لیے اپنے ارد گرد موجود صحابہ سے پوچھا: کيا ذو اليدين جو کہہ رہے ہيں وہ سچ ہے کہ ميں نے صرف دو ہی رکعت نماز پڑھی ہے؟ صحابہ کرام نے جواب ديا: ہاں۔ اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم آگے بڑھے اور جو نماز چھوٹ گئی تھی اسے پڑھی، اور تشہد کے بعد سلام پھیرا، پھر بيٹھے ہوئے تکبیر کہی اور اصل نماز کے سجدے کے مثل یا اس سے بھی لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا اور تکبیر کہی، پھر تکبیر کہی اور دوسرے سجدے کے مثل یا اس سے بھی لمبا سجدہ کیا پھر اپنا سر اٹھایا اور تکبیر کہی، پھر سلام پھیرا اور تشہد ميں نہيں بيٹھے۔