الوتر
كلمة (الوِتر) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، ومعناها الفرد،...
ابو سعید خدری - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہوجائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں؟ تین یا چار ؟ تو وہ شک کو چھوڑ دے اور جتنی رکعتوں پر اسے یقین ہے ان پر بنیاد رکھے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرلے، اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہیں تو یہ سجدے اس کی نماز کو جفت (چھ رکعتیں) کردیں گے اور اگر پوری چار رکعات پڑھی ہوں تو یہ سجدے شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث ہوں گے“ ۔
حدیث شریف مسلمان کی اس حالت کو بیان کر رہی ہے جو دورانِ نماز شک ہوجانے پر وہ کرتا ہے۔ اس صورت میں وہ یقین پر اپنے نماز کی بِنا کرے، اگر رکعات کی تعداد میں شک ہو تو کم عدد پر یقین کرکے سلام سے پہلے سہو کے دوسجدے کر لے۔ ابو سعید خدری - رضی اللہ عنہ - سے روایت حدیث ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا "إذا شك أحدكم في صلاته" یعنی بغیر کسی ترجیح کے جب تردد میں پڑ جائے تو وہ غالب گمان کے مطابق بِنا کرے گا، مثال کے طور پر اسے رکعات کی تعداد معلوم نہ ہو کہ تین رکعتیں ہوئی ہیں یا چار، "فليطرح الشك" یعنی چوتھی رکعت کے ہونے اور نہ ہونے میں شک ہے، "ولْيَبْنِ على ما استيقن" یعنی تین رکعات جن کا اسے یقینی علم ہے اس پر باقی نماز پڑھے۔”پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے“ یہ افضل ہے کہ سجدے سلام سے پہلے ہوں۔ "فان كان صلى خمسا" اس میں دو سجدوں کی علت بیان کی گئی ہے یعنی اگر اس نے حقیقت میں چار رکعات پڑھی ہیں تو ایک رکعت زیادہ پڑھنے کی وجہ سے وہ پانچ رکعات ہوگئی اوردو سجدے چونکہ ایک رکعت کے قائم مقام ہیں اس لیے اس کی نماز کے رکعات کی تعداد جفت ہوگئی اور اس کی نماز اصل میں جفت ہے طاق نہیں۔اس لیے کہ حدیث میں مذکور مثال میں چار رکعات بیان کی گئی ہیں۔"وإن كان صلى إتماما لأربع" یعنی درحقیقت اگر نماز اس نے چار رکعات پڑھی ہوں تو بغیر کسی زیادتی اور نقصان کے اس نے اپنی نماز ادا کرلی۔ "كانتا ترغيما للشيطان" یعنی اگر اس کی نماز اصل میں چار رکعات ہے تو دو سجدے شیطان کی ذلّت کا باعث بنیں گے۔ والله أعلم۔