الحافظ
الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحافظ) اسمٌ...
علقمہ اور اسود سے روایت ہے، دونوں کہتے ہیں: عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک ایسے شخص کا معاملہ پیش کیا گیا، جس نے ایک عورت سے شادی تو کی، لیکن اس کا مہر متعین نہہیں کیا اور اس سے خلوت سے پہلے مر گیا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں سے پوچھو کہ کیا تم لوگوں کے سامنے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں) ایسا کوئی معاملہ پیش آیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اے ابوعبد الرحمٰن! ہم کوئی ایسی نظیر نہیں پاتے۔ توانھوں نے کہا: میں اپنی عقل ورائے سے کہتا ہوں؛ اگردرست ہو تو سمجھو کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔ ”اسے مہر مثل دیا جائے گا؛ نہ کم اور نہ زیادہ۔ اسے میراث میں اس کا حق وحصہ دیا جائے گا اور اسے عدت بھی گزارنی ہو گی“۔ (یہ سن کر) اشجع (قبیلے) کا ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: ہمارے یہاں کی ایک عورت بِرْوع بنت واشق کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی فیصلہ دیا تھا۔ اس عورت نے ایک شخص سے نکاح کیا۔ وہ شخص اس کے پاس (خلوت میں) جانے سے پہلے مر گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے خاندان کی عورتوں کے مہر کے مطابق اس کے مہر کا فیصلہ کیا اور (بتایا کہ) اسے میراث بھی ملے گی اورعدت بھی گزارے گی۔ (یہ سن کر) عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیے اور اللہ اکبر کہا (یعنی اللہ کی بڑائی بیان کی)۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت شادی کے بعد مہر متعین ہونے سے پہلے شوہر کے فوت ہو جانے سے مکمل مہر کی مستحق ہوگی؛ اگرچہ دخول و خلوت نہ حاصل ہوئی ہو۔ اگر مہر متعین نہیں کیا گیا ہے تو خاندان کی دیگر عورتوں کے مہر کے مطابق اس کا مہر متعین کیا جائے گا۔ یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ایسی عورتوں پرعدت ہے؛ کیوں کہ اس کا نکاح ہوچکا ہے، اگر شوہر کی وفات ہو جائے تو اس پر وفات وسوگ کی عدت واجب ہوگی، گرچہ دخول وخلوت نہ ہوئی ہو۔ اسی طرح وہ میراث کی مستحق ہوگی؛ کیوں کہ وہ بیوی ہے، شوہر کے اس سے شادی کرنے کی وجہ سے۔