المهيمن
كلمة (المهيمن) في اللغة اسم فاعل، واختلف في الفعل الذي اشتقَّ...
خالد بن عرفطہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اے خالد! عنقریب میرے بعد بہت سارے نئے واقعات، فتنے اور اختلاف جنم لیں گے۔ اگر تم میں اللہ کے نزدیک قاتل کے بجائے مقتول بندہ بننے کی استطاعت ہو تو ایسا ہی کرنا‘‘۔
نبی کریم ﷺ نے خالد بن عرفطہ رضی اللہ عنہ کو بتایا ہے کہ عنقریب تمہیں بہت سارے اختلافات، جنگوں اور فتنوں کا سامنا ہو گا ۔ مثلاً امت کے پاس ان کی قیادت کے لیے کوئی حقیقی حکمران نہیں ہوگا، یا پھر ہر ریاست کا الگ الگ راجہ ہو گا، ان کے درمیان فتنے اور جنگیں رونما ہوں گی تو ایسے وقت میں انہیں فتنے سے الگ رہنے، اپنے آپ کو ان کا حصہ بننے سے بچائے رکھنا اور پیچھے بیٹھے رہنے اور ان کا ساتھی نہ بننے کا حکم دیا۔ اگر ظلماً ان کو قتل کر دیا جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی مسلم کو قتل کریں۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے گھر میں رہیں یا پھر فتنے سے بچنے کے لیے علاقہ تبدیل کرلیں۔ لیکن دلیل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان کو فتنے کے وقت میں اپنا، اپنے اہل وعیال اورمال ودولت کا دفاع کرنا چاہیے، فتنے کے وقت میں دفاع کرنا چاہیے اگر وہ قتل کردیتا ہے یا قتل کردیا جاتا ہے تو اس کو معذور سمجھا جائے گا بشرطیکہ فتنہ و فساد کے کھڑے ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ لیکن جب امت مسلمہ کسی ایک امام (کی حکمرانی) پر مجتمع ہو جائے چاہے وہ انصاف کے ساتھ ہو یا جبراً ، پھر اس کے خلاف خروج کرنا ممنوع ہے۔ ایسا کرنے والے اصل میں اطاعت کی لاٹھی کو توڑنا چاہتے ہیں۔ حکمران کے لیے ضروری ہے کہ اس کے خلاف خروج کرنے والوں سے مذاکرات کرے۔ اگر مذاکرات کے بعد بھی وہ اس کی اطاعت سے انکار کرتے ہیں اور مسلمانوں کو ڈراتے ہیں تو حکمران پر واجب ہے کہ ان کے خلاف قتال کرے تاکہ ان کے شر کو روکا جائے اور رعایہ پر بھی واجب ہے کہ وہ حکمران کا ساتھ دیں۔ اس وقت تک ان خروج کرنے والوں سے قتال کریں جب تک وہ باز نہ آ جائیں یا پھر اللہ کے حکم کی طرف لوٹ نہ آئیں۔ اطاعت سب کے لیے ایک جیسی ہے چاہے وہ باغی ہوں یا خارجی ہوں۔