القهار
كلمة (القهّار) في اللغة صيغة مبالغة من القهر، ومعناه الإجبار،...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا تھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا؟ کیا فلاں نے، فلاں نے؟ یہاں تک کہ جب ایک یہودی کا نام آیا، تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (کہ ہاں)، یہودی پکڑا گیا اور اس نے جرم کا اقرار کر لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا جائے۔ صحیح مسلم اور سنن نسائی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں"ایک یہودی نے چاندی کے زیورات کی لالج میں ایک لڑکی کو قتل کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کو قصاص میں قتل کر دیا۔"
نبی ﷺ کے زمانے میں ایک لڑکی اس حال میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا تھا اور اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی۔ لوگوں نے اس کے قاتل کے بارے میں تحقیق کرنے لیے، اس کے سامنے ان افراد کے نام گنانے شروع کر دیے، جن کے بارے میں اس بات کا گمان تھا کہ وہ اس کو قتل کرسکتے ہیں، تا آں کہ ایک یہودی کا نام لینے پر اس لڑکی نے اپنے سر سے مثبت اشارہ دیا کہ ہاں! اسی شخص نے اس کا سر کچلا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے قتل کا ملزم قرار پاگیا۔ لوگوں نے اس کو پکڑ لیا اور اس سے جرم کا اقرار کروایا، تاآں کہ اس نے اس لڑکی کو، اس کے چاندی کے زیورات کو حاصل کرنے کی غرض سے قتل کرنے کا اعتراف کرلیا۔ لہٰذا نبی ﷺ نے ''جیسے کو تیسا" کے اصول کے مطابق، اس کو سزا دیتے ہوئے اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دینے کا حکم دیا۔