الكبير
كلمة (كبير) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، وهي من الكِبَر الذي...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سن لی ہے(اور مسلم کی روایت میں ہے کہ اللہ نے اس شخص کی حفاظت کی ذمے داری لے لی ہے)، جو اس کے راستے میں (جہاد کے لیے) نکلے۔ (اللہ فرماتا ہے:) اگر اس کا یہ نکلنا محض میری راہ میں جہاد کے لیے اور مجھ پر ایمان اور میرے انبیا کی تصدیق کے جذبے سے ہو، تو میں اسے اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ یا تو اسے جنت میں داخل کردوں گا، یا ثواب یا غنیمت کے ساتھ اس کے گھر میں واپس پہنچا دوں گا، جس سے وہ نکلا تھا‘‘۔ مسلم کی روایت میں ہے: ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال -اور اپنی راہ میں جہاد کرنے والے کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے- قیام کرنے والے روزے دار کی طرح ہے۔ اوراللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والے کی حفاظت کی ذمے داری لے لی ہے؛ اس کی وفات ہوگئی، تو جنت میں داخل کرے گا۔ ورنہ صحیح سالم ثواب اور مالِ غنیمت کے ساتھ واپس لائے گا‘‘۔
اس حدیث میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے اللہ کی طرف سے اس ضمانت کا بیان ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا اگر محض اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے خالص جہاد کے لئے نکلتا ہے، تو اللہ اسے تین یا دو چیزوں میں سے کسی ایک کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر وہ شہید کردیا گیا، تو اللہ اسے جنت میں داخل کرنے کا ضامن ہے اورباقی بچ گیا تو اسے ثواب یا غنیمت کے ساتھ گھر واپس پہنچائے گا۔ یعنی یا تو ثواب کے ساتھ بغیر غنیمت کے یا ثواب اور غنیمت دونوں کے ساتھ۔ رہی دوسری روایت، جسے صاحبِ 'عمدہ' نے مسلم کی طرف منسوب کیا ہے، حالاں کہ وہ متفق علیہ ہے، اس میں بیان کیا گيا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی فضیلت یعنی ایسا عمل جو جہاد کے قائم مقام ہو، انسانی طاقت سے باہر کی چیز ہے؛ کیوں کہ وہ عمل لگاتار نماز، روزہ اور قیام اللیل میں لگے رہنا ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔