البارئ
(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والا ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا کہ آج کی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا گیا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ کعبہ کی طرف رخ کریں۔ لہذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کرليں۔ (اس وقت) ان لوگوں کے چہرے شام کی طرف تھے، تو (يہ سن کر) سب کعبہ کی طرف گھوم گئےـ
ايک صحابي مدينہ کے نواح میں مسجد قباء کی طرف گئے تو پتہ چلا کہ وہاں کے لوگوں کواب تک قبلہ کی تبديلی کا علم نہيں ہوا ہے اور وہ لوگ ابھی بھی قبلۂ اول (بيت المقدس) کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ رہے ہيں، تو انہيں بتلايا کہ قبلہ کو کعبہ کی طرف پھیر دیا گيا ہے، اور اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے، صحابی رضی اللہ عنہ کا اشارہ اللہ تعالیٰٰ کے اس فرمان کی طرف تھا: ﴿ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ﴾[البقرة: 144] ''ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں۔''(سورہ بقرہ: 144) اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہء کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے۔ لہذا ان لوگوں نے دین کی گہری سمجھ، تيز فہمی اور صحيح فہم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پہلے قبلہ بيت المقدس کی طرف سے اپنا رخ موڑ کر اپنے دوسرے قبلہ خانہءکعبہ کی طرف کرليا۔