الرب
كلمة (الرب) في اللغة تعود إلى معنى التربية وهي الإنشاء...
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ’’وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اس کا بوسہ لینے کے بعد کہنے لگے: مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے ۔ تو نہ کچھ نقصان دے سکتا ہے اور نہ کوئی نفع۔ اگر میں نے نبی ﷺ کو تمہارا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تمہارا بوسہ نہ لیتا۔‘‘
مقامات و اوقات اور دیگر اشیاء بذات خود اس طرح سے مقدس و معظم نہیں ہوتے جیسا کہ اللہ کی عبادت اپنی ذات کے اعتبار سے معظم ہوتی ہے۔ بلکہ ان کی تعظیم شریعت کی بنا پر ہوتی ہے۔ اسی لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور حاجیوں کے سامنے اس کا بوسہ لیا جنھیں بتوں کی پوجا اور ان کے احترام کو چھوڑے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور وضاحت فرمائی کہ اس پتھر کو چومنا اور اس کی تعظیم کرنا ان کی اپنی اپچ نہیں اور نہ ہی اس وجہ سے ہے کہ اس سے کوئی نفع یا نقصان ہوتا ہے بلکہ یہ تو ایک عبادت ہے جسے انھوں نے شارع علیہ السلام سے لیا ہے۔ انھوں نے نبی ﷺ کو ا س کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ کی اقتداء میں انھوں نے بھی اس کا بوسہ لیا نہ کی اپنی ذاتی رائے کی بنا پر یا خود ساختہ طور پر ایسا کیا۔