البحث

عبارات مقترحة:

الرقيب

كلمة (الرقيب) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل) أي:...

القابض

كلمة (القابض) في اللغة اسم فاعل من القَبْض، وهو أخذ الشيء، وهو ضد...

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ "سب سے پہلی خرابی جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی، یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا تو کہتا کہ اللہ سے ڈرو اور جو تم کر رہے ہو اس سے باز آ جاؤ کیونکہ یہ تمہارے لیے حلال نہیں، پھر اگلے دن اس سے ملتا تو وہ اپنی اسی سابقہ (منکر)حالت پر برقرار رہتا، اس کے باوجود اس کا ہم نوالہ ، ہم پیالہ اور ہم مجلس ہونے میں اسے کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی ۔ جب ان کا یہ حال ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی بعضوں کے دل کو بعضوں کے دل کے ساتھ ملا دیا " پھر آپ نے آیاتِ کریمہ "لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ﴿78﴾كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿79﴾تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ﴿80﴾وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَـٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ﴿81﴾"۔(سورہ المائدہ: 78-81)۔ترجمہ: (بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وه نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے (78) آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وه کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وه بہت برا تھا (79) ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وه کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں، جو کچھ انہوں نے اپنے لیے آگے بھیج رکھا ہے وه بہت برا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور وه ہمیشہ عذاب میں رہیں گے (80) اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور نبی پر اور جو نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان ہوتا تو یہ کفار سے دوستیاں نہ کرتے، لیکن ان میں کے اکثر لوگ فاسق ہیں(81)")۔ ـــــــــــ تک کی تلاوت کی، پھر فرمایا: " خبردار ! اللہ کی قسم ! تمہیں بالضرور نیکی کا حکم دینا ہو گا ، برائی سے روکنا ہو گا ، ظالم کا ہاتھ پکڑنا ہو گا اور اسے حق پر لوٹانا اور حق کا پابند بنانا ہو گا ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں سے بعض کے دلوں کو بعض کے دلوں سے ملا دے گا، پھر تم پر بھی لعنت کرے گا جیسے ان پر لعنت کی ہے۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا : "جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہو گئے تو انہیں ان کے علماء نے روکا مگر وہ لوگ باز نہ آئے، اس کے باوجود وہ (علماء) ان کی نشست گاہوں میں ان کے ساتھ بیٹھتے ، ان کے ساتھ مل کر کھاتے اور پیتے تو اللہ تعالیٰ نے بعض کے دل بعض سے ملا دیئےاور ان پر داود اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت بھیجی اور ایسا اس وجہ سے ہوا کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور مقررہ حدود سے آگے بڑھ جاتے تھے"، پھر رسول اللہ سنبھل کر بیٹھ گئے، حالانکہ آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: "نہیں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم اس وقت تک نجات نہ پاؤ گے جب تک کہ تم ان بدکاروں کو بھلائی کی طرف موڑ نہ دو "۔

شرح الحديث :

بنی اسرائیل کے دین میں سب سے پہلی خرابی یوں پیدا ہوئی کہ ان میں سے کوئی شخص، نافرمانی کرنے والے دوسرے شخص سے ملتا تو اس سے کہتا کہ اے شخص! اللہ تعالیٰ سے ڈر اور اپنی نافرمانیوں سے باز آجا؛ کیونکہ تمہاری یہ نافرمانیاں تمہارے لیے جائز نہیں کیونکہ یہ محرمات میں سے ہیں، پھر وہ اس سے دوسرے دن ملتا اور یہ شخص اپنی اسی نافرمانیوں میں مبتلا رہتا، اپنے اس ساتھی کو منع کردہ حرام کاموں میں ملوث پانے کے باوجودیہ امر ، اس کو اس کا ہم نوالہ، ہم پیالہ اور ہم مجلس بنے رہنے میں رکاوٹ نہ بنتا۔ چنانچہ جب انہوں نے ایسا طرزِعمل اپنایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا (ایک جیسا کردیا)، پھر اللہ تعالیٰ کے اس قول "لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿78﴾كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿79﴾تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ﴿80﴾وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَـٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ ﴿81﴾"(بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وه نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے (78) آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وه کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وه بہت برا تھا (79) ان میں سے بہت سے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ وه کافروں سے دوستیاں کرتے ہیں، جو کچھ انہوں نے اپنے لئے آگے بھیج رکھا ہے وه بہت برا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور وه ہمیشہ عذاب میں رہیں گے (80) اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور نبی پر اور جو نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان ہوتا تو یہ کفار سے دوستیاں نہ کرتے، لیکن ان میں کے اکثر لوگ فاسق ہیں(81)")(سورۃ المائدہ) ــــــــــــ میں بنی اسرائیل پر کی گئی عمومی لعنت سے استدلال کرتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایاکہ بہر صورت تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور ظالم کے ظلم کو اپنے ہاتھ سے روکو اور اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکو اور اس کو دین حق کی جانب پوری طرح موڑ دواور اس پر قائم رہنے پر اس کو مجبور کردو اور اس سے تجاوز کرنے نہ دو، ورنہ (اگر ایسا نہ کروگے) تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملادے گا، پھر تمہیں بھی اپنی رحمت سے اسی طرح دھتکارے گا جس طرح انہیں دھتکار دیا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية