البحث

عبارات مقترحة:

القابض

كلمة (القابض) في اللغة اسم فاعل من القَبْض، وهو أخذ الشيء، وهو ضد...

المقتدر

كلمة (المقتدر) في اللغة اسم فاعل من الفعل اقْتَدَر ومضارعه...

الرزاق

كلمة (الرزاق) في اللغة صيغة مبالغة من الرزق على وزن (فعّال)، تدل...

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: "میں نے نبی سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟"۔ آپ نے فرمایا: "نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا"۔ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا عمل زیادہ پسند ہے؟۔ آپ نے فرمایا: "والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا"۔ "میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ "۔آپ نے فرمایا: "اللہ کے راستےمیں جہاد کرنا"۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ وہ اعمال ہیں، جو رسول اللہ نےمجھے بتائے۔ اگر میں آپ سے اور زیادہ پوچھتا، تو آپ مجھے اور زیادہ بتاتے۔

شرح الحديث :

ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی سے اللہ کی خاطر کیے جانے والے نیک اعمال کے بارے میں دریافت کیا کہ اللہ تعالی کو ان میں سے کون سا نیک عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ کیوں کہ عمل جتنا زیادہ اللہ تعالی کا محبوب ہو گا، اتنا ہی اس کا ثواب زیادہ ہو گا۔ آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایاکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل فرض نماز کو اس کے شارع کی طرف سے مقرر کردہ وقت میں ادا کرنا ہے؛ کیوں کہ یہ اللہ تعالی کے بلاوے کو قبول کرنے میں پیش قدمی، اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس عظیم فرض کے اہتمام کا مظہر ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نیکی میں رغبت رکھنے کی وجہ سے انھوں نے اس پر اکتفا نہ کیا، بلکہ آپ سے اللہ کے پسندیدہ اعمال میں سے دوسرے درجے کے نیک عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: والدین کی فرماں برداری کرنا۔ پہلا نیک عمل محض اللہ کا حق ہے، جب کہ دوسرا محض والدین کا حق ہے اور والدین کے حق کا درجہ اللہ کے حق کے بعد آتا ہے۔ بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے تو اسے اتنی اہمیت دی ہے کہ قرآن کریم کے کئی مقامات پر اللہ تعالی والدین کے حق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی توحید کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے؛ کیوں کہ آپ کے وجود کا سبب ہونے، آپ کی تربیت اور پرورش اور آپ پر شفقت و مہربانی کرنے کی وجہ سے والدین کا یہ حق واجب ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی سے مزید سوال کیا، جو (خیر کی بات بتانے میں) بخل نہیں کرتے کہ اہم ترین نیک اعمال کے اس سلسلے میں اس کے بعد والا درجہ کس نیک عمل کا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ یہ اسلام کی چوٹی اور اس کا ستون ہے۔ اسی سے اسلام کا وجود ہے اور اسی سے اللہ کا حکم سر بلند ہوتا ہے اور اس کا دین پھیلتا ہے۔ اس کو چھوڑ دینے میں اسلام کا انہدام ہے، مسلمان زوال و انحطاط کا شکار ہوتے ہیں، ان کی عزت جاتی رہتی ہے، ان کا اقتدار چھن جاتا ہے اور ان کی سلطنت و حکومت زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ ہر مسلمان پر تاکید کے ساتھ فرض ہے۔ پس جس نے جہاد نہ کیا اور نہ ہی اس کے دل میں جذبہ جہاد پیدا ہوا، گویا وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية