الجبار
الجَبْرُ في اللغة عكسُ الكسرِ، وهو التسويةُ، والإجبار القهر،...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو، سیدھی راہ پر چلو اور جان ركھو کہ تم میں سے کوئی بھی محض اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا: اللہ کے رسول ! آپ بھی نہیں؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: میں بھی نہیں! مگر یہ کہ اللہ تعالی اپنی رحمت و فضل سے مجھے ڈھانپ لے۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ راستگی حسب استطاعت ہوتی ہے۔ نبی ﷺ فرمایا "قاربوا وسددوا"۔ یعنی اپنے تئیں اچھا عمل کرنے کی پوری کوشش کرو مطلب یہ کہ اس بات کی کوشش کرو کہ تمہارے اعمال مقدور بھر راستگی پر مبنی ہوں۔ کیونکہ انسان تقوی کے جس بھی درجے کو جا پہنچے وہ غلطی ضرور کر ہی جاتا ہے۔چنانچہ انسان کو حکم یہ ہے کہ وہ مقدور بھر اپنی استطاعت کے مطابق میانہ روی کے ساتھ درست اعمال کرے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: "واعلموا انه لا ينجوا أحد منكم بعمله"۔ یعنی کوئی بھی دوزخ سے محض اپنے اعمال کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا۔ کیونکہ عمل شکر کے اس مقام تک نہیں پہنچ پاتا جو اللہ تعالی کے لیے واجب ہے اور نہ ہی بندے پر اس کے جو حقوق ہیں وہ ادا ہو پاتے ہیں۔ تاہم اللہ تعالی بندے کو اپنی رحمت سے ڈھانپ کر اسے بخش دیتا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: "کوئی بھی محض اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا۔" تو صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ آپ بھی نہیں؟۔ اس پر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ میں بھی نہیں۔ یعنی نبی ﷺ بھی اسی طرح اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پائیں گے۔ آپ ﷺ نے اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہا: مگر یہ کہ اللہ تعالی مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے گا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جس بھی مرتبے اور ولایت کے جس بھی درجے پر جا پہنچے وہ محض اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پا سکتا حتی کہ نبی ﷺ بھی نہیں۔ اگر اللہ نے آپ ﷺ کی اگلی اور پچھلی لغزشوں سے درگزر نہ کر لیا ہوتا تو آپ ﷺ کو آپ ﷺ کا عمل نجات نہیں دے سکتا۔