القهار
كلمة (القهّار) في اللغة صيغة مبالغة من القهر، ومعناه الإجبار،...
ابو بکر صدیق - رضی اللہ عنہ- کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: اے لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو: (يَا أَيُّها الَّذِين آمَنُوا عَلَيكُم أَنفسَكُم لاَ يَضُرُّكُم مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيتُم) [المائدة: 105]۔ ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راهِ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراه رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: لوگ جب ظالم كو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان سب پر عذاب نازل ہوجائے۔
ابو بکر صدیق - رضی اللہ عنہ- نے کہا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: (يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم) (المائدة: 105) ترجمہ: اے ایمان والوں! اپنی فکر کرو، جب تم راه راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراه رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔ تم اس سے یہ سمجھتے ہو کہ اگر انسان بذات خود ہدایت یافتہ ہو تو اسے لوگوں کی گمراہی کوئی نقصان نہیں دیتی کیوں کہ وہ اپنی ذات کی حد تک ٹھیک ہے اور بندہ جب اپنی ذات کی حد تک ٹھیک ہو تو لوگوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اس آیت کا یہ معنی درست نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے گمراہ کے ہمارے لیے نقصان دہ نہ ہونے کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ ہم ہدایت یافتہ ہوں اور یہ بات ہدایت کا حصہ ہے کہ ہم نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔ چنانچہ جب یہ ہدایت کا حصہ ہے تو نقصان سے بچنے کے لیے امر بالمروف اور نہی عن المنکر بہت ضروری ہے۔ اس لیے ابوبکر - رضی اللہ عنہ- نے بیان کیا کہ: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ جب برائی کو دیکھ کر اسے بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے اور نہ ظالم کا ہاتھ پکڑیں گے تو جلد ہی اللہ کا عذاب ان سب کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔ یعنی گمراہ شخص ان لوگوں کو بھی نقصان پہنچائے گا جب کہ وہ اس گمراہ کو دیکھ کر اسے اچھائی کی تلقین نہیں کریں گے اور برائی سے روکیں گے نہیں۔ اس صورت میں بہت جلد اللہ کا عذاب ارتکاب کرنے والوں اور انجان بننے والوں سب کو آ لے گا۔ یعنی برائی کرنے والوں پر بھی یہ عذاب آئے گا اور ان پر بھی جنھوں نے اس سے روکا نہ کیا ہوگا۔