البحث

عبارات مقترحة:

الخالق

كلمة (خالق) في اللغة هي اسمُ فاعلٍ من (الخَلْقِ)، وهو يَرجِع إلى...

القاهر

كلمة (القاهر) في اللغة اسم فاعل من القهر، ومعناه الإجبار،...

النصير

كلمة (النصير) في اللغة (فعيل) بمعنى (فاعل) أي الناصر، ومعناه العون...

جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ رسول اللہ نے فرمایا: "مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھیں۔ ایک مہینے کی مسافت سے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی، تمام زمین میرے لیے مسجد اور حصولِ پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی۔ چنانچہ میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو (جہاں بھی) پالے، اسے وہیں نماز ادا کر لینی چاہیے۔ اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کر دیا گیا۔ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔ اور نبی صرف اپنی ہی قوم کے لیے مبعوث کیے جاتے تھے، لیکن مجھے تمام انسانوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے"۔

شرح الحديث :

تمام انبیا میں سے ہمارے نبی کو بطور خاص کچھ اعزازی خصوصیات سے نوازا گیا اور آپ کو ایسی امتیازی خوبیاں عطا کی گئیں، جو آپ سے پہلے آنے والے انبیا کو حاصل نہیں ہوئیں۔ چنانچہ اس امت محمدیہ کو بھی نبی کریم کی با برکت ذات کے طفیل ان فضائل و مکارم میں سے کچھ حصہ مل گیا۔ ان خصائل میں سے پانچ وہ جلیل القدرخصلتیں ہیں، جن کا اس حدیث میں ذکر آیا ہے۔ اول: اللہ سبحانہ و تعالی نے نبی کی نصرت کی اور آپ کے دشمنوں کے مقابلے میں رعب کے ذریعے آپ کی مدد کی، جو آپ کے دشمنوں پر طاری ہو کر انھیں کمزور اور ان کی صفوں کو منتشر کر دیتا، اگرچہ آپ ان سے ایک ماہ کی مسافت پر ہوتے۔ ایسا اللہ کی طرف سے آپ کی مدد و نصرت اور اللہ کے دین کے دشمنوں کو رسوا ئی اور شکست سے دوچار کرنے کے لیے ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک بہت بڑی مدد تھی۔ دوم: اللہ تعالی نے نبی کریم اور آپ کی امت کے لیے کشادگی فرما دی کہ ساری زمین کو اس امت کے لیے مسجد قرار دے دیا۔ چنانچہ ان کے لیے جائز ہے کہ جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے، وہیں نماز ادا کر لیں۔ نماز کی ادائیگی کے لیے کچھ مخصوص جگہیں ضروری نہیں ہیں، جیسا کہ ان سے پہلے کی امتوں کے لیے تھا کہ وہ صرف اپنے کلیساؤں یا گرجا گھرو ں میں ہی عبادت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس طرح اللہ تعالی نے اپنے فضل و احسان کے ساتھ اس امت سے دشواری اور تنگی کو دور کر دیا۔ اسی طرح اس امت سے پہلے کی امتوں کے لوگوں کے لیے صرف پانی ہی حصولِ طہارت کا ذریعہ تھا۔ جب کہ اس امت میں سے جسے پانی دستیاب نہ ہو، اس کے لیے مٹی کو حصولِ طہارت کا ذریعہ قرار دے دیا گیا۔ اگر ضرر پہنچنے کے اندیشے کی وجہ سے کوئی پانی کے استعمال سے قاصر ہو، تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ سوم : مال غنیمت، جو کفار اور جنگ جؤوں سے حاصل ہوتا ہے، وہ نبی اور آپ کی امت کے لیے حلال ہے۔ وہ اسے اس طرح تقسیم کریں گے جس طرح اللہ نے بیان فرمایا ہے۔ جب کہ یہ سابقہ انبیا اور ان کی امتوں کے لیے حرام تھا۔ وہ لوگ اموال غنیمت کو جمع کرتے اور اگر اللہ ان کا عمل قبول کرلیتا، تو آسمان سے ان پر آگ نازل ہو کر انھیں جلا ڈالتی۔ چہارم: اللہ سبحانہ و تعالی نے خاص طور پر نبی کو مقام محمود اور روزِ قیامت میدانِ حشر میں شفاعت عظمی عطا کی، جب کہ اولو العزم رسول بھی اس سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ اس موقع پر آپ فرمائیں گے کہ میں یہ شفاعت کروں گا اور پھر آپ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو کر اللہ کے شایان شان اس کی بزرگی بیان کریں گے۔ اس پر کہا جائے گا کہ شفاعت کرو، تمھاری شفاعت قبول کی جائےگی۔ مانگو، تمھیں دیا جائے گا۔ اس وقت نبی اللہ تعالی سے تمام مخلوق کے لیے شفاعت کریں گے کہ وہ اس طویل مقام میں ان کے مابین فیصلہ کر دے۔ یہی وہ مقام ِمحمود ہے، جس پر پہلے اور بعد والے رشک کرتے ہیں۔ پنجم: سابقہ انبیا میں سے ہر نبی کی دعوت اس کی اپنی قوم کے ساتھ خاص تھی۔ اللہ تعالی نے اس شریعت کو ہر وقت اور ہر جگہ کے لیے موزوں بنایا ہے۔ اس موزونیت اور کمال کی وجہ سے یہی آخری شریعت ٹھہری؛ کیوںکہ اس میں کسی زیادتی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کو ئی نقص پایا جاتا ہے۔ اپنے اندر پائے جانے والے بقا اور ہمیشگی کے عناصر کی وجہ سے یہ ایک جامع شریعت ہے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية