ابو جحیفہ وہب بن عبد اللہ السوائی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: "میں نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ چمڑے سے بنے ایک سرخ خیمےمیں مقیم تھے"۔ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: " اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ (آپ ﷺ کے) وضو کا پانی لے کر نکلے، تو کوئی ان سے یہ پانی لے رہا تھا اور کوئی اس سے یہ پانی لے رہا تھا، جس نے ان سے لیا تھا"۔ "پھر نبیﷺ سرخ جبہ زیب تن فرمائے باہر تشریف لائے۔ میں گویا (اب بھی چشم تصور سے) آپ ﷺ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں"۔ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : "بلال رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور اذان دی"۔ وہ کہتے ہیں: " میں ان کے منہ کےساتھ ساتھ اپنے منہ کو ادھر ادھر پھیرنے لگا۔ وہ دائیں بائیں منہ کر کے حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کہہ رہے تھے۔ پھر آپ ﷺ کے لیے (بطور سترہ) ایک چھڑی گاڑ دی گئی۔ آپ ﷺ آگے بڑھے اور ظہر کی دو رکعتیں پڑھائیں۔ مدینہ واپس تشریف لے آنے تک آپ ﷺ دو رکعت ہی پڑھتے رہے"۔
شرح الحديث :
نبی ﷺ بالائی مکہ کے ایک کشادہ مقام پر مقیم تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے وضو کے باقی ماندہ پانی کو لے کر باہر آئے، تو لوگ اس سے برکت حاصل کرنا شروع کر دیے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں بلال رضی اللہ عنہ کے منہ کو دیکھنے لگا۔ وہ "حی علی الصلوۃ "اور "حی علی الفلاح" کہتے ہوئے دائیں بائیں مڑ رہے تھے؛ تاکہ سب لوگوں کو یہ سنائی دے سکیں، کیوں کہ ان دونوں جملوں میں نماز کے لیے آنے کی ترغیب ہے۔ پھر نبی ﷺ کے لیے ایک چھوٹا سا نیزہ گاڑ دیا گیا؛ تا کہ وہ آپ ﷺ کی نماز کے دوران سترہ کا کام دے۔ پھر آپ ﷺ نے ظہر کی دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ مسافر ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ جب تک مدینہ واپس نہیں آگئے، تب تک چار رکعت والی نماز کو دو رکعت ہی پڑھتے رہے۔