البحث

عبارات مقترحة:

الظاهر

هو اسمُ فاعل من (الظهور)، وهو اسمٌ ذاتي من أسماء الربِّ تبارك...

الشهيد

كلمة (شهيد) في اللغة صفة على وزن فعيل، وهى بمعنى (فاعل) أي: شاهد،...

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: انسان کا ہر عمل اس کے لیے ہے، سوائے روزے کے کہ وہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ اور روزہ ایک ڈھال ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو، تو فحش (دل لگی کی) باتیں نہ کرے اور نہ شور وغل کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے يا اس سے جھگڑا کرے تو کہہ دے: میں روزہ دار آدمی ہوں۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ روزے دار کے لیے خوشیوں کے دو مواقع ہیں جن میں وہ خوش ہوتا ہے: جب وہ روزہ افطار کرتا ہے۔ تو اپنا روزہ کھولنے سے خوش ہوتا ہے، اور جب اپنے رب سے ملے گا تو (اس کی جزا دیکھ کر) اپنے روزے سے خوش ہوگا۔'' اور یہ بخاری کی روایت کے الفاظ ہيں، اور بخاری ہی کی ايک اور روايت میں ہے : ''وہ میری وجہ سے اپنا کھانا، پینا اور جنسی خواہش چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور (باقی ہر) نیکی کو دس گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔'' اور مسلم کي ایک روايت میں ہے: ''ابن آدم کے ہر نیک عمل کو دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: سوائے روزے کے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ وہ میری وجہ سے اپنی جنسی خواہش اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ رکھنے والے کے لیے دوخوشیاں ہیں: ایک خوشی اس کے افطار کے وقت، اور ایک خوشی اپنے رب عزوجل سے ملاقات کے وقت۔ اور یقینا روزے دار کے منہ کی بُو اللہ عزوجل کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔

شرح الحديث :

اس حديث قدسی میں نبی خبر دے رہے ہیں کہ تمام نيک اعمال بشمول ظاہری و باطنی اقوال و افعال، چاہے ان کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہو يا بندوں کے حقوق سے، ان کا اجر وثواب سات سو گنا تک بڑھا ديا جاتا ہے۔ يہ اللہ کے فضل کی وسعت اور اپنے مومن بندوں پر اس کے احسان کی سب سے بڑی دليل ہے کہ ان کی نافرمانیوں اور خلاف ورزیوں کی جزا کو ایک کے بدلے ایک گناہ قرار دیا ہے، اور اللہ کی مغفرت ان سب سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس حديث ميں روزے کے ثواب کو مستثنیٰ کيا گيا ہے، کيوںکہ روزہ دار کو بغير حساب کے بدلہ ديا جاتا ہے، یعنی اس كے اجر كو بہت گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ روزہ ميں صبر کی تينوں قسميں پائی جاتی ہیں: اللہ کی اطاعت وبندگی پر صبر کرنا۔ اللہ کی حرام کردہ چيزوں سے صبر کرنا (یعنی ان سے باز رہنا)۔ اور اللہ کی تقدير پر صبر کرنا۔ پہلی قسم: رہی بات اللہ کی اطاعت و بندگی پر صبر کرنے کی تو آدمی بسا اوقات كراہت کے باوجود اپنے نفس کو روزہ رکھنے پر آمادہ كرتا ہے، وہ اسے اس كى مشقت وپريشانی کی وجہ سے ناپسند کرتا ہے، نہ کہ اس وجہ سے کہ اللہ نے اسے فرض کیا ہے۔اگر انسان اس وجہ سے روزہ ناپسند کرے کہ اللہ نے اسے فرض کیا ہے تو اس کا عمل برباد ہو جائے گا۔ بلکہ اس نے اسے صرف مشقت کی وجہ سے ناپسند کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے نفس کو اس پر آمادہ کرتا ہے۔ چنانچہ وہ اللہ کی خاطر (روزہ کی حالت میں) کھانے پينے اور ہم بستری سے صبر کرتا (باز رہتا) ہے، اسی وجہ سے اللہ نے حدیث قدسی میں فرمایا: وہ میری وجہ سے اپنا کھانا، پینا اور جنسی خواہش چھوڑ دیتا ہے۔ دوسری قسم: اللہ کی نافرمانی سے صبر کرنا یعنی اس سے باز رہنا، اور يہ روزےدار کو اس طرح حاصل ہے کہ وہ اپنے نفس کو اللہ کی معصیت سے روکتا ہے، چنانچہ وہ جھوٹ، بے حيائی اور لا يعنی باتوں سے پرہيز کرتا ہے۔ تيسری قسم: اللہ کی تقدير پر صبر کرنا ہے، کیوںکہ اسے روزے کے دنوں ميں، بالخصوص گرم اور لمبے دنوں میں سستی، اکتاہٹ اور پياس وغيرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے اسے تکلیف اور اذیت پہنچتی ہے، ليکن وہ اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتا ہے۔ جب روزے ميں صبر کی تينوں قسميں پائی جاتی ہیں، تو اس کا اجر بھی بے حساب ہوگا، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (إنما يوفى الصابرون أجرهم بغير حساب) ’’بے شک صبر کرنے والوں کو پورا پورا بدلہ ديا جائے گا۔‘‘ حديث سے پتہ چلتا ہے کہ حقيقی روزہ اسی کو کہيں گے جس ميں بندہ دو چيزیں چھوڑ دے: روزہ کو توڑنے والی ظاہری اشياء: جيسے کھانا، پينا، جماع وغيرہ۔ عملی مخالفات: جيسے جھوٹی بات، شور وغل، بے حيائی اور بے ہودہ باتيں تمام گناہ، اور بغض وحسد کو جنم دینے والے جھگڑے اور تنازعات۔ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا کہ ’’وہ بے ہودہ بات نہ کرے‘‘ يعنی بری بات نہ بولے اور نہ لڑائی جھگڑا اور فتنہ برپا کرنے والی باتيں کرے۔ تو جو شخص روزہ کو توڑنے والی چيزوں کو چھوڑ دے اور اسی طرح روزہ کی حالت ميں جن چيزوں سے منع کيا گيا ہے انھیں بھی چھوڑ دے، تو اس کے لیے روزے داروں کا اجر پورا ہو گیا۔ اور جو ايسا نہيں کرتا اس کی خلاف ورزیوں کے حساب سے اس کے روزے کے اجر میں کمی ہو جائے گی۔ پھر روزہ دار کو اس بات کا حکم ديا گيا ہے کہ جب اس سے کوئی لڑائی کرنا چاہے يا گالی گلوج کرے تو اس سے کہہ دے کہ ميں روزے سے ہوں۔ يعنی اس کی گالی کا جواب نہ دے بلکہ کہے کہ ميں روزہ سے ہوں۔ وہ ایسا اس وجہ سے کہے گا تاکہ گالی دینے والا اس پر بلند ہونے کا احساس نہ کرے، گویا کہ وہ کہے کہ: میں تمہارا مقابلہ کرنے سے قاصر نہیں ہوں، لیکن میں روزےدار ہوں، اپنے روزہ کا احترام کرتا ہوں، اور اس کے کمال اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کا پاس و لحاظ کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ عليہ وسلم کا فرمان: ’’روزہ ڈھال ہے‘‘ يعني بچاؤ ہے، بندہ اس سے دنيا ميں گناہوں سے بچتا ہے اورر نيکيوں پر مشق کرتا ہے، نیز آخرت ميں اللہ کے عذاب سے بچاؤ ہے۔ ’’روزہ رکھنے والے کے لیے دوخوشیاں ہیں: ایک اسے افطاری کے وقت خوشی حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اپنے رب عزوجل سے ملاقات کے وقت حاصل ہوگی۔ یہ دو ثواب ہیں: ايک جلد (یعنی دنیا میں) حاصل ہونے والا۔ اور ايک بعد ميں ملے گا۔ تو جو جلد (یعنی دنیا میں) حاصل ہونے والا ہے، اس کا مشاہدہ کیاجاتا ہے، جب روزہ دار افطاری کرتا ہے، تو اپنے اوپر اللہ کی تکمیل صیام کی نعمت سے خوش ہوتا ہے، نیز اپنی ان خواہشات کی حصولیابی پر بھی خوش ہوتا ہے جن سے وہ دن کے اوقات میں روک دیا گیا تھا۔ اور جو ثواب بعد ميں ملے گا، وہ اپنے رب سے ملاقات کے وقت اللہ کی خوشنودی واکرام کے حصول پر ملنے والی خوشی ہے۔ اور روزہ دار کی پہلی خوشی بعد ميں ملنے والی خوشی کا نمونہ ہے، اور عنقريب اللہ تعالیٰ روزہ دار کے لیے دونوں خوشياں جمع کر دے گا۔ اور پھر اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنے رب کی قسم کھا کر ۔ جس کے قبضہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے۔ فرمایا کہ: ’’روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘ اورمسلم کی ايک روايت ميں ہےکہ: ’’قيامت کے دن اللہ کے نزديک سب سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ قيامت کے دن اسے یہ بدلہ دے گا کہ دنيا میں اس کے منہ کی ناپسندیدہ بو کو قيامت کے دن خوشبودار بنا دے گا يہاں تک کہ وہ مشک کی خوشبو سے زيادہ پاکیزہ ہو جائے گی۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية