الحكيم
اسمُ (الحكيم) اسمٌ جليل من أسماء الله الحسنى، وكلمةُ (الحكيم) في...
سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر دنیا اللہ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت رکھتی تو وہ کافر کو اس سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔
اس حدیث میں اللہ کے ہاں دنیا کی حقارت کو بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر اللہ کے ہاں اس کی تھوڑی سی بھی قیمت ہوتی تو کافر کو اس سے ایک گھونٹ پانی نہ پلاتا، چہ جائیکہ کافر کواس دنیا میں نعمتوں سے نوازتا اور اس کو اس دنیا کی خوش گوار اشیاء سے لطف اندوز ہونے دیتا۔ اسی لیے دنیا اللہ کے ہاں حقیر ہے بخلاف آخرت کے کہ یہ خالص مومنوں کے حق میں دائمی نعمتوں کا گھر ہے کفار کےمقابلے۔ اسی لیے اہلِ ایمان پر لازم ہے کہ اس دنیا کی حقیقت کو پہچانیں اور اس کی طرف مائل نہ ہوں، اس لیے کہ یہ گزرگاہ ہے رہنے کی جگہ نہیں۔ چنانچہ یہاں سے اتنا ہی لیں جتنا کہ اپنی آخرت سنوار سکیں جو ان کا ہمیشگی کا گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ * أَفَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ‘‘ ۔ [القصص: 60 ، 61]۔ ترجمہ: اور تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وه صرف دنیوی زندگی کا سامان اور اسی کی رونق ہے، ہاں اللہ کے پاس جو ہے وه بہت ہی بہتر اور دیرپا ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے، کیا وه شخص جس سے ہم نے نیک وعده کیا ہے جسے وه قطعاً پانے واﻻ ہے مثل اس شخص کے ہوسکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانیٴ دنیا کی کچھ یونہی سی منفعت دے دی پھر بالآخر وه قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا۔