البارئ
(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...
ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف رحمہ اللہ سے روايت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس کھانا لایا گیا جب کہ آپ روزے سے تھے۔ آپ نے فرمایا: مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے اور وه مجھ سے بہتر تھے۔ ان کے کفن کے لیے صرف ايک چادر ميسر آئی، جس سے اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا توان کے پير کھل جاتے اور اگر پير ڈھانپے جاتے تو سر کھلا رہ جاتا۔ پھر ہمارے لیے دنیا فراخ کردی گئی جو تم ديکھ رہے ہو، یا یہ فرمایا: ہمیں دنیا اتنی عطا کردی گئی ہے جو ظاہر ہے۔ ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں دنيا ہی ميں ہماری نيکيوں کا جلدی بدلہ تو نہيں دے ديا گيا؟ پھر رونے لگے يہاں تک کہ کھانا بھی چھوڑ ديا۔
حدیث کا مفہوم: عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک دن روزے سے تھے۔ جب افطار کا وقت آیا تو ان کے لئے کھانا لایا گیا۔ روزہ دار کو عام طور پر کھانے کی چاہت ہوتی ہے۔ لیکن عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اولين صحابۂ کرام کے احوال کو یاد کیا۔ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ خود بھی اولين اور مہاجرين صحابہ میں سے تھے، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو کم تر سمجھتے ہوئے فرمایا کہ: مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تواضع اور انکسارِ نفس میں مجھ سے بہتر تھے، یا وہ فقر اور صبر کو اختیار کرنے کے اعتبار سے مجھ سے بہتر تھے۔ ورنہ علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ عشرۂ مبشرہ (انہيں ميں سے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ہيں) باقی صحابہ سے افضل ہیں۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے قبل اپنے والدین کے ساتھ مکہ میں رہتے تھے اور ان کے والدین بہت مالدار تھے۔ ان کے ماں باپ انہيں نو جوان لڑکوں کے بہترین لباس پہناتے تھے۔ انہوں نے بہت لاڈ پیار سے انہں پالا تھا، لیکن جب وہ اسلام لائے تو والدین نے انہیں چھوڑ دیا اور اپنے سے دور کردیا۔ یہ مہاجرین میں سے تھے، ان کے بدن پر پیوند لگے کپڑے رہتے تھے، جب کہ پہلے یہ اپنے والدین کے ساتھ مکہ میں بہترین کپڑے پہنا کرتے تھے، لیکن انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرکے یہ سب چیزیں چھوڑ دیں۔ اُحد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا دیا اور وه اس میں شہید ہوگئے۔ ان کے پاس ایک چادر تھی، اس سے جب ان کا سر ڈھانپا جاتا تو کپڑا چھوٹا ہونے کی وجہ سے ان کے پیر نظر آتے، اور اگر ان کے پیر ڈھانپے جاتے تو سر کھل جاتا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس سے ان کا سر ڈھانپ دیا جائے اوران کے پیر اذخر گھاس سے ڈھانپ دیے جائیں۔ اذخر ایک معروف گھاس ہے۔ حدیث مذکور میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کا حال یاد فرما رہے ہیں۔ پھر فرماتے ہيں کہ وہ لوگ چلے گئے اور ان کے بعد کے لوگوں پر اللہ نے جو دنيا کے مال و غنيمت کی فراخی کردی ہے اس سے وہ لوگ محفوظ ہوگئے ۔ جيسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا“ (اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ حاصل کريں گے) [الفتح: 19] پھر عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں دنيا ہی ميں ہماری نيکيوں کا جلدی بدلہ تو نہيں دے ديا گيا؟ یعنی ہمیں خوف ہے کہ کہيں ہم ان لوگوں کے زمرے میں تو نہيں داخل ہوگئے جن کے بارے میں کہا گیا ہے: "من كان يريد العاجلة عجلنا له فيها ما نشاء لمن نريد ثم جعلنا له جهنم يصلاها مذمومًا مدحورًا." (جس کا اراده صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں، بالآخر اس کے لیے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا) [الإسراء: 18] یا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: "أذهبتم طيباتكم في حياتكم الدنيا واستمتعتم بها" (تم نے اپنی نیکیاں دنیا کی زندگی میں ہی برباد کر دیں اور ان سے فائدے اٹھا چکے) [الأحقاف: 20]. جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ ان سب کی وجہ سے جب ان پر خوف غالب رہتا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ کو ڈر لاحق ہوا کہ کہیں ان کی نیکیوں کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں جلدی نہ دے دیا گیا ہو۔ اسی لیے وہ اس خوف اور خدشے سے رونے لگے کہ کہيں ایسا نہ ہو کہ وہ پہلے نیک لوگوں کے ساتھ شامل نہ ہوسکيں۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے کھانا چھوڑ دیا۔