الرحمن
هذا تعريف باسم الله (الرحمن)، وفيه معناه في اللغة والاصطلاح،...
ابوسعید اورابوہریرہ - رضی اللہ عنہما - سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کو جو بھی تھكان، مرض، پريشانی، صدمہ، تکلیف یا غم پہنچتا ہے حتی کہ اگر كوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کے گناہ معاف کردیتا ہے۔
مفہومِ حدیث: مسلمان کو جو بھی امراض، پریشانیاں، دکھ، کرب، مصائب و تکلیفات اور خوف و گبھراہٹ پہنچتے ہیں وہ اس کے گناہوں کا کفارہ اور اس کی غلطیوں کو مٹانے کا باعث بن جاتے ہیں۔ مزید برآں اگر انسان ان پر صبر کرے اور اجر کی امید رکھے تو اسے ان پر اجر بھی ملتاہے۔ مصیبتیں دو طرح کی ہوتی ہیں: بعض اوقات جب مصیبت آتی ہے تو انسان اجر کو ذہن میں لاتے ہوئے اس مصیبت پر اللہ تعالی سے ثواب کا خواستگار ہوتاہے۔اس میں دو فائدے ہوتے ہیں: ایک یہ کہ گناہ معاف ہوتے ہیں اور دوسرا نیکیاں بڑھتی ہیں۔ بعض اوقات انسان کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوتی۔ وہ تنگ دل اور کبیدہ خاطرتو ہوتاہے تاہم اس کی نیت میں یہ نہیں ہوتاکہ اس سے اللہ کی طرف سے اسے اجر و ثواب ملے گا۔ اس میں بھی اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہر حال میں وہ فائدے میں رہتاہے۔ چنانچہ یا تو بغیر کسی اجر کے صرف اس کی خطائیں معاف ہوتی ہیں اور گناہ مٹتے ہیں کیوں کہ اس نے نہ تو کسی شے کی نیت کی تھی اور نہ ہی صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھی تھی۔ یا پھر اسے دونوں فوائد حاصل ہوتے ہیں یعنی اس کی خطائیں بھی معاف ہوتی ہیں اورجیسا کہ پہلے ذکر ہوا اسے اللہ عزوجل کی طرف سے ثواب بھی ملتاہے۔ اس لیے انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب اس پر کوئی مصیبت آئے چاہے کانٹا ہی چبھے تو وہ اس مصیبت پر اللہ سے ثواب کی امید رکھے تاکہ گناہوں کے معاف ہونے کے ساتھ ساتھ اسے اس مصیبت پر اجر بھی مل جائے۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک نعمت اور اس کے جود و کرم کا مظہر ہے۔اللہ تعالی مومن شخص کو کسی ابتلاء وآزمائش میں ڈالتا ہے اور پھر اسے اس آزمائش پر یا تو اجر دیتا ہے یا اس کے گناہ معاف کرتا ہے۔ تنبیہ: معافی صرف صغیرہ گناہوں کی ہوتی ہے نہ کہ کبیرہ گناہوں کی جو صرف سچی توبہ سے ہی دور ہوتے ہیں۔