الولي
كلمة (الولي) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) من الفعل (وَلِيَ)،...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شیطان تم میں سے ہر آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوں پھونک دیتا ہے کہ سوجا ابھی رات بہت باقی ہے۔ پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کو یاد کرنے لگے تو ایک گرہ کھُل جاتی ہے، پھر اگر وضو کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق وچو بند اور خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ بد مزاج اور سست رہتا ہے۔
حدیث کا مفہوم: شیطان ہر سونے والے کے سر کے پیچھے تین گرہیں لگاتاہے۔ یہاں گرہ سے مراد حقیقی گرہ ہے اوریہ ویسے ہی ہے جیسے جادو گر جس شخص پر جادو کرتا ہے اس پرگرہیں لگاتا ہے بایں طور کہ وہ ایک دھاگہ لے کر اس پر گرہ لگاتا ہے اور اس پر کچھ جادو پھونکتا ہے جس سے وہ شخص متاثر ہوتا ہے جس پر جادو کیا جا رہا ہو۔ ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ "رات کو تم میں سے ہر ایک کی گدّی پر ایک رسی ہوتی ہے جس میں تین گرہیں ہوتی ہیں"۔ شیطان خاص طور پر سرکے پچھلے حصے پر گرہیں لگاتا ہے کیونکہ یہ جسمانی قوت کا مرکز اور ان کو چلانے کی جگہ ہے۔ اس جگہ موجود قوتیں شیطان کی بہت زیادہ مطیع اور بہت جلد اس کے کہے میں آجاتی ہیں۔ چنانچہ ان پر گرہیں لگانے سے اس کے لیے ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ انسان کی روح پر قابو پا لے اور اس پر نیند طاری کر دے۔ " يَضْرِب على كل عُقْدَةٍ "۔ یعنی وہ اپنے ہاتھ سےہر گرہ پر مارتا ہے تا کہ اس کی لگائی گئی ہرگرہ مضبوط اور پختہ ہو جائے۔ پھر وہ یہ بات کہتا ہے کہ "رات بہت لمبی ہے"۔ یعنی رات کی بہت لمبا وقت ابھی باقی ہے۔ تو جتنا چاہتا ہے سو لے۔ جب تو جاگے گا تو رات کی نماز کے لیے تیرے پاس کافی وقت ہو گا۔''فَارْقُدْ"۔ یعنی دوبارہ سو جا۔ " فإذا استيقظ وذكرَ اللهَ انحلت عقدة" اللہ کے ذکر کی وجہ سے (ایک گرہ کھل جاتی ہے)۔" فإذا توضأ انحلت عقدة "۔ یعنی وضو کی برکت سے (دوسری گرہ کھل جاتی ہے)۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ "اگر وہ وضو کر لے تو دو گرہیں کھل جاتی ہیں"۔ اگر حدث اکبر سے پاک ہونے کے لیے وہ غسل کر لے تو اس میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔" اگر وہ نماز پڑھ لے" اگرچہ ایک رکعت نماز ہی پڑھ لے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ "ساری گرہیں کھل جاتی ہیں"۔ "وہ صبح کو چاق و چوبند ہوتا ہے"۔ اللہ نے اسے جو نیکی کی توفیق دی اوراس کے لیے جو ثواب کا وعدہ ہے اور اس پر سے شیطان کی لگائی ہوئی گرہیں زائل ہونے کی خوشی کی وجہ سے وہ چاق و چوبند ہوتا ہے۔ طَيِّبَ النفس " (خوش مزاج رہتا ہے)۔ کیونکہ اس کے اس حسن تصرف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے نفس میں برکت دے دیتا ہے۔ اگر وہ ان مذکورہ تینوں باتوں کو نہ کرے تو صبح کو وہ بد مزاج اور سست ہوتا ہے۔ یعنی اس کا برا حال ہوتا ہے کیونکہ شیطان اس کو بے یار و مددگار چھوڑ جاتا ہے اور وہ ان نیک اعمال کو نہیں کرپاتا جو اس کا معمول ہوتے ہیں یا جن کے کرنے کی اس نے نیت کر رکھی ہوتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’اس سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ رات کی نماز میں نفس کی خوش مزاجی میں ایک راز ہے اگرچہ ان مذکورہ باتوں میں سے نمازی کے ذہن میں کوئی بھی نہ ہو اور اسی طرح اس کا عکس ہے (کہ نہ پڑھنے کی صورت میں بد مزاجی آتی ہے)۔ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان کے ذریعے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے ’’ إن ناشئة الليل هي أشد وطئا وأقوم قيلا‘‘۔ ترجمہ: ’’بےشک رات کا اٹھنا نفس کو خوب زیر کرتا ہے اور بات بھی صحیح نکلتی ہے‘‘۔ ختم شد!