البحث

عبارات مقترحة:

الرحيم

كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...

الحي

كلمة (الحَيِّ) في اللغة صفةٌ مشبَّهة للموصوف بالحياة، وهي ضد...

المبين

كلمة (المُبِين) في اللغة اسمُ فاعل من الفعل (أبان)، ومعناه:...

عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نو یا آٹھ یا سات لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم رسول اللہ سے بیعت نہیں کرتے؟ حالاں کہ ہم نے انہیں دنوں آپ سے بیعت کی تھی۔ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم آپ سے بیعت کر چکے ہیں۔آپ نے پھر فرمایا کیا تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرتے؟ ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا دیے اور کہا ہم پہلے آپ سے بیعت کر چکے ہیں اب بتائیں آپ سے کس چیز کی بیعت کریں؟ آپ نے فرمایا ”اس بات پر کہ تم اللہ کی عبادت کروگے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، پانچوں نمازیں ادا کرو گے اور اللہ کی اطاعت کرو گے اور ایک جملہ آہستہ آواز میں کہا کہ لوگوں سے کچھ نہیں مانگوگے“۔ (راوی کہتے ہیں) اس کے بعد میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ ان کا چابک (سواری سے) گر جاتا، لیکن وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ یہ چابک اسے تھما دو۔

شرح الحديث :

عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ نے فرمایا (كنا جلوساً عند رسول الله، فقال: ألا تبايعون رسول الله وكنا حديث عهد ببيعة) کہ ہم اللہ کے رسول کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا کیا تم رسول اللہ سے بیعت نہیں کروگے؟ حالاں کہ حال ہی میں ہم نے آپ سے بیعت کی تھی۔ یہ بیعت ہجرت، جہاد اور اس کی راہ میں صبر کرنے کی بیعت سے قبل ’لیلۃ العقبہ‘ کی بیعت تھی۔ ہم نے کہا ’’قد بايعناك يا رسول الله، ثم قال‘‘ (اے اللہ کے رسول ہم نے آپ سے بیعت کرلی ہے؟ پھر آپ نے اپنی پہلی بات کے بعد فرمایا۔) پھر آپ نے فرمایا ’’ألا تبايعون رسول الله‘‘ کہ کیا تم رسول اللہ سے بیعت نہیں کروگے؟ ابوداؤد کی روایت میں ان کے اس قول کے بعد ’’قد بايعناك حتى قالها ثلاثاً‘‘ (یعنی ہم نے بیعت کر لی تین دفعہ کہا) کا اضافہ ہے۔ ’’فبسطنا أيدينا‘‘ (یعنی ہم نے بیعت کے لئے ہاتھ پھیلا دیے)۔ ہم نے کہا ’’قد بايعناك يا رسول الله‘‘ (یعنی پہلے بیعت کر چکے ہیں)۔ ’’فعلام نبايعك‘‘ (اب کسی چیز پر بیعت کریں، حُکم دیں۔) فرمایا ’’أن تعبدوا‘‘ (کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے) یعنی میں تم سے بیعت لیتا ہوں اللہ کی عبادت پر (وحده) یعنی اکیلے۔ یہ ترکیب میں لفظِ اللہ سے حال واقع ہے۔ ’’ولاتشركوا به شيئاً“ (اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروگے) یعنی شرک اور باقی معبودات میں سے۔ و ”الصلوات الخمس“ یعنی تم پنجوقتہ نمازیں پڑھا کرو جیسا کہ ابوداؤد کی حدیث میں صراحت ہے۔ ’’وتطيعوا اللہ“ یعنی ہر اس چیز میں اطاعت کرو جس کا وہ تمہیں حکم دیتا ہے اور اس سے بچو جس سے منع کرتا ہے۔ و (أسر كلمة خفية) اس جملے کو آپ نے آہستہ اس لیے کہا کہ اس سے پہلے آپ کی عام وصیت تھی، جب کہ یہ جملہ بعض لوگوں کے ساتھ مختص ہے۔ کلمہ سے مُراد معنی لغوی ہے اور وہ (ولا تسألوا الناس شيئاً) کا جملہ ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ مکارم اخلاق، لوگوں کے احسان سے بچنے، حاجتوں کے آنے پر صبر کی برتری، لوگوں سے استغناء اور عزتِ نفس کو شامل ہے۔ عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’فلقد رأيت بعض أولئك النفر يسقط سوط أحدهم فما يسأل أحد يناوله إياه‘‘۔ (اس کے بعد میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ ان کا چابک (سواری سے) گر جاتا، لیکن وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ یہ چابک اسے تھما دو۔) اس سے مُراد لوگوں سے ان کا مال مانگنا ہے۔ اس کو عمومی سوال کرنے پر محمول کیا گیا ہے۔اس میں لوگوں سے ہر طرح کے سوال سے بچنا ہے اگرچہ کوئی حقیر چیز ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں اس بات کا بیان ہے کہ سلف صالحین جس چیز پر قائم تھے یعنی قول اور عمل کی اتباع کرنے میں اور اس علم کی عملی تطبیق کرنے میں جسے انھوں نے آپ سے حاصل کیا تھا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ: "لا تسألنّ أحداً شيئاً وإن سقط سوطك ولا تقبض أمانة" (کسی سے کچھ نہ مانگنا اگرچہ آپ کا چابک بھی گر جائے اور بطورِ امانت بھی کوئی چیز نہ لینا)۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية