النصير
كلمة (النصير) في اللغة (فعيل) بمعنى (فاعل) أي الناصر، ومعناه العون...
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہي کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا (کوئی چیز نہیں مانگے گا) اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں؟“، ثوبان نے کہا کہ میں (ضمانت دیتا ہوں)، چنانچہ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے نبی ﷺ کے لیے لوگوں سے ان کے اموال مانگنا اور اپنے معاملات کے نپٹانے میں ان سے مدد مانگنا چھوڑ دے خواہ یہ مانگنا تھوڑی چیز کا ہو یا زیادہ کا، تو اللہ کے رسول ﷺ نے اسے جنت کی ضمانت دی ہے۔ اس لیے کہ مخلوق سے نہ مانگنے میں اللہ کی ذات پر توکل ہوگا اور یہ اللہ کی ذات پر اعتماد اور اللہ سے قوی امید وابستہ رکھنے کی علامت ہے۔ چنانچہ اس کا بدلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ثوبان رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو آپ ﷺ سے سننے کے بعد نبی ﷺ سے یہ وعدہ کیا کہ وہ لوگوں سے کچھ بھی نہیں مانگیں گے، چنانچہ ابنِ ماجہ کی روایت میں ان کے بارے میں منقول ہے کہ یہ سوار ہوتے ان کا کوڑا گر جاتا تو کسی سے نہ کہتے کہ مجھے میرا کوڑا دیدو، بلکہ خود اتر کر لے لیتے۔ یہ اس عہد کی پاسداری ہے جو انہوں نے آپ ﷺ سے کر کے اسے اپنے اوپر لازم کیا تھا۔