المعطي
كلمة (المعطي) في اللغة اسم فاعل من الإعطاء، الذي ينوّل غيره...
ابو ہریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے اور یقیناً اللہ اپنے مومن بندوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیاہے جس کا حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ”يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا“ (اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔) [المؤمنون: 51] اور فرمایا: ”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ” (اے ایمان والو! کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تمہیں بطورِ رزق دیا ہے۔) [البقرة: 172]۔ پھر آپ ﷺ نےایک آدمی کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے لمبے سفر کی وجہ سے اس کے بال پراگندہ اور غبار آلودہ ہوتے ہیں، وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب! (دعا قبول فر ما لے) جب کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا پہناوا حرام اور اس کی پرورش بھی حرام مال کے ذریعہ ہوئی ہو تو بھلا اس کی دعا کیسے قبول کی جائے۔
بے شک اللہ تعالیٰ ہر قسم کے نقص اور عیوب سے پاک ہے، وہ ہر قسم کی صفاتِ جلال، جمال اور کمال سے متصف ہے، لہٰذا اس کی طرف حرام یا شکوک و شبہات سے حاصل کردہ مال کوخرچ کرنے یا صدقہ دینے یا خراب قسم کے کھانے پینے کی چیزوں سے قربت نہ حاصل کی جائے، بے شک اللہ تعالٰی نے مومنین کو عملِ صالح اور اپنی نعمتوں پر شکر گزاری کے ساتھ حلال اور پاکیزہ چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اپنے رسولوں کو دیا تھا پھر رسول ﷺ نے واضح کیا کہ بیشک اللہ سبحانہ وتعالٰی جس طرح پاکیزہ چیزوں کے خرچ کرنے کو پسند کرتا ہے، اسی طرح اعمال میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں پسند فرماتا ہے اور اعمال کی پاکیزگی (نبی ﷺ کی) پیروی اور اخلاص وللٰہیت سے حاصل ہو گی۔ پھر آپ ﷺ نے اپنی امت کو حرام سے بچنے کے متعلق آگاہ کیا، چنانچہ آپ ﷺ نے ایک آدمی کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، یعنی نیکیوں اور اطاعت میں جیسے حج، جہاد اور روزگار کی تلاش، بھلائی کے راستے میں لمبے سفر کی وجہ سے اس کے بال پراگندہ اور غبار آلودہ ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اللہ سے گریہ وزاری کرتے ہوئے اٹھاتا ہے اس کے باوجود اس کی دعا اس کی حرام کمائی کی وجہ سے قبول ہونا محال ہے کیونکہ اس کا کھانا پینا حرام تھا۔