المنان
المنّان في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعّال) من المَنّ وهو على...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا۔ (واپسی پر) آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور رسول اللہ ﷺ کے چچا عباس نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابن جمیل انکار نہیں کرتا ہے، مگر یہ کہ پہلے وہ فقیر تھا اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے مالدار بنادیا۔ رہے خالد، تو (زکوۃ کا مطالبہ کرکے) تم ان پر ظلم کررہے ہو۔ انہوں نے اپنی زرہیں اور سامانِ جنگ اللہ کی راہ میں وقف کردیا ہے۔ اور رہی بات عباس کی تو ان کی زکوۃ اس سال اور اگلے سال کی میرے ذمہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمر! کیا تم نہیں جانتے کہ آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے؟
نبی ﷺ نے عمر بن الخطاب کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ جب عمر رضی اللہ عنہ عباس بن عبد المطلب کے پاس زکوٰۃ لینے آئے تو انہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور ایسا ہی خالد بن ولید اور ابن جمیل نے کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور ان تینوں کی شکایت کی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابن جمیل کے پاس تو نہ دینے کا کوئی عذر نہیں ماسوا اس کے کہ وہ ایک فقیر شخص تھا جسے اللہ نے امیر بنا دیا۔ اس امیری کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے زکوٰۃ ادا کرے۔ خالد کے بارے میں یہ کہہ کر کہ انہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا ہے تم ان پر ظلم کر رہے ہو۔ اس نے تو اپنی زرہیں اور سامانِ جنگ اللہ کی راہ میں وقف کردیا ہے۔ لہٰذا ایک ایسا آدمی کس طرح زکوٰۃ روک سکتا ہے جو ایسی چیز خرچ کرکے اللہ کی قربت حاصل کرتاہے جو اس پر واجب نہیں ہے، پھر وہ ایسی چیز سے انکار کردے جو اللہ نے اس پر واجب کیا ہے، یہ بہت دور کی بات ہے۔ رہی بات عباس رضی اللہ عنہ کی تو آپ ﷺ نے ان کی طرف سے ادائیگی کی ذمہ داری لی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایسا ان کے مقام و منزلت کے پیش نظر کیا ہو، جیساکہ آپ ﷺ کے اس فرمان سے پتہ چلتا ہے: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے؟‘‘ تيسير العلام(1/304) تنبيه الأفهام(399) تأسيس الأحكام، شرح حديث رقم (173)