القاهر
كلمة (القاهر) في اللغة اسم فاعل من القهر، ومعناه الإجبار،...
ابوشریح خویلد بن عمرو الخزاعی العدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید بن العاص سے، جب کہ وہ مکہ میں فوجیں بھیج رہا تھا، کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیں کہ میں آپ سے وہ بات بیان کروں جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے دن (ایک خطبہ کے دوران) ارشاد فرمایا تھا، اس بات کو میرے کانوں نے سنا، میرے دل نے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ بات فرماتے دیکھا ہے! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: مکہ کو اللہ نے حرم (حرمت والا شہر) بنایا ہے لوگوں نے اسے حرم نہیں ٹھہرایا ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس میں خونریزی کرے، یا یہاں کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی شخص اس بنا پر رخصت اختیار کرے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہاں قتال کیا تو اس سے کہہ دو کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی لیکن تمہیں اجازت نہیں دی ہے۔ اور مجھے بھی صرٖف دن کی ایک ساعت کے لیے اجازت ملی تھی۔ پھر آج اس کی حرمت اسی طرح پلٹ آئی جس طرح کل اس کی حرمت تھی۔ اب جو ہاں حاضر ہے اسےچاہئے کہ غیر حاضر کو یہ بات پہنچا دے۔ ابوشریح سے پوچھا گیا: عمرو بن سعید نے (یہ حدیث سن کر) آپ کو کیا جواب دیا؟ انہوں نے بتایا کہ عمرو نے کہا: اے ابو شریح! میں یہ حدیث تم سے زیادہ جانتا ہوں مگر حرم کسی نافرمان کو، یا خون کر کے بھاگے ہوئے یا کوئی جرم کر کے بھاگے ہوئے کو پناہ نہیں دیتا ہے۔
عمرو بن سعید بن العاص جو کہ اشدق کے نام سے مشہور تھا، اس وقت یزید بن معاویہ کی طرف سے مدینہ منورہ کا امیر (گورنر) مقرر تھا۔ اس نے جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے لڑائی کے لیے مکہ مکرمہ پر لشکر کشی کا ارادہ کیا، تو ابو شُریح خویلد بن عمرو الخزاعی اسے اس بابت نصیحت کرنے آئے۔ چونکہ جسے نصیحت کی جارہی تھی وہ ان کے دل میں گراں قدر تھا، اس لئے ابو شریح نے حکمت اور دانائی کے پیشِ نظر اس کے ساتھ بات کرنے میں نرمی برتی۔ تاکہ نصیحت قبول کر لی جائے اور اس کا ردِّ عمل بُرا نہ ہو۔ اس لیے ابو شُریح نے اس سے اس لشکر کشی کے بارے میں نصیحت کرنے کی اجازت چاہی جس کے لیے وہ کوشاں تھا، اور اسے بتلایا کہ وہ اس کے سامنے جو حدیث پیش کرنے جا رہے ہیں وہ بالکل صحیح ہے اور انہیں اس کی سچائی پر پورا بھروسہ ہے، اس لیے کہ اسے ان کے کانوں نے سنا ہے، ان کے دل نے یاد رکھا ہے اور ان کی آنکھوں نے دیکھا ہے جس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی۔ تو عمرو بن سعید نے انہیں بات کرنے کی اجازت دے دی۔ ابو شُریح نے کہا کہ فتح مکہ کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: مکہ کو اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کے دن ہی حرام (حرمت والا) بنایا ہے۔ اس لئے اس کی تعظیم و تقدیس بہت قدیم ہے، اسے لوگوں نے حرام نہیں کیاہے جیسے وہ عارضی محفوظ علاقے، چراگاہ اور پنگھٹ کو حرام (ممنوع) قرار دیتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تحریم کا ذمہ لیا ہے، تاکہ اس کی عظمت زیادہ ہو۔ لہٰذا جب اس کی حرمت قدیم اور اللہ کی طرف سے ہے، تو پھر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کے لیے، اگر اسے اپنے ایمان کی حفاظت کا خیال ہے، جائز نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے یا اس میں کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی شخص فتح مکہ کے دن میرے قتال کی وجہ سے رخصت اختیار کرے تو اس سے کہو: تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نہیں ہو۔ کیونکہ آپ ﷺ کو اس کی اجازت دی گئی تھی اور تمہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ (آپ ﷺ) کے لیے بھی اس میں قتال کرنا ہمیشہ کے لئے حلال نہیں کیا گیا، بلکہ بقدر ضرورت صرف دن کی ایک گھڑی میں آپ کو اجازت دی گئی تھی، پھر آج اس کی حرمت پہلے ہی کی طرح پلٹ آئی۔ لہٰذا حاضر کو چاہیئے کہ وہ غائب کو یہ بات پہنچا دے۔ لہٰذا اے امیر! میں نے تمہیں یہ پیغام پہنچادیا، کیونکہ فتح مکہ کی صبح اس حدیث کے بیان کے وقت میں حاضر تھا، اور آپ وہاں موجود نہیں تھے۔ لوگوں نے ابوشُریح سے کہا کہ عمرو نے تمہیں کیا جواب دیا؟ انہوں نے فرمایا: اس نے مجھے اس طرح جواب دیا: اے ابو شُریح! میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں، حرم کسی نافرمان یا کوئی جرم کر کے بھاگے ہوئے کو پناہ نہیں دیتا ہے۔ اس نے حدیث کے مقابلے میں اپنی رائے پیش کی اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کے لئے لشکر کشی سے باز نہ آٰیا، بلکہ اسے جاری رکھا۔