البر
البِرُّ في اللغة معناه الإحسان، و(البَرُّ) صفةٌ منه، وهو اسمٌ من...
عبد الله بن عباس رضي الله عنهما سے مرفوعاً روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میری ماں وفات پا گئی ہے اور اس کے ایک مہینے کے روزے رہ گئے ہیں۔ کیا میں اس کی طرف سے ان کی ادائیگی کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہاری ماں پر کوئی قرض واجب الادا ہوتا تو کیا تم اس کی طرف سے اسے ادا کرتے؟ اس نے جواب دیا کہ: ہاں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے‘‘۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میری ماں کا انتقال ہو گیا اور اس کے ذمہ نذر کا ایک روزہ واجب الادا تھا۔ کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھ سکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے بتاؤ کہ اگر تمہاری ماں پر کچھ قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی؟ اس نے جواب دیا کہ: ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر اپنی ماں کی طرف سے روزہ رکھو‘‘۔
اس حدیث کی دو روایات ہیں اور سیاق سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں نہ کہ ایک ہی واقعہ: پہلی روایت: یہ ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے آپ ﷺ کو بتایا کہ اس کی ماں وفات پا گئی ہے اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے۔ کیا اسے چاہیے کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے ان کی ادائیگی کرے؟ دوسری روایت: ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اس کی ماں وفات پا گئی ہے اور اس کے ذمہ نذر کا ایک روزہ واجب الادا تھا۔ کیا وہ اس کے طرف سے روزہ رکھ سکتی ہے؟ نبی ﷺ نے دونوں کو فتویٰ دیا کہ وہ اپنے والدین کے ذمہ واجب الاداء روزے رکھیں۔ پھر آپ ﷺ نے انہیں یہ بات سمجھانے کے لیے اور مزید وضاحت کے لیے ایک مثال دی کہ اگر ان کے والدین کے ذمے کسی آدمی کا کوئی قرض ہوتا تو کیا وہ ان کی طرف سے اسے ادا کرتیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ: ہاں۔ اس پر آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ: یہ روزہ اللہ کا ان کے والدین پر قرض ہے۔ اورجب آدمی کا قرض ادا کیا جاتا ہے تو اللہ کا قرض بدرجۂ اولیٰ ادا کرنا چاہیے۔