المجيد
كلمة (المجيد) في اللغة صيغة مبالغة من المجد، ومعناه لغةً: كرم...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی مومن کی دنیا کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کردی، اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور کردے گا۔۔ جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی، اللہ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ برابر بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے۔ جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستے پر چلا اللہ تعالیٰ اس كی وجہ سے اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔ جب کوئی قوم اللہ کے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتی ہے اور اسے آپس میں پڑھتی پڑھاتی ہے، تو ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے، (اللہ تعالیٰ کی) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ اپنے پاس موجود فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے۔ اور جس کا عمل اسے پیچھے کردے، اس کا نسب اسے آگے نہیں لے جاسکتا‘‘۔
یہ حدیث ہمیں بتا رہی ہے کہ جو شخص کسی مسلمان سے کسی مصیبت کو دور کرتا ہے یا پھر اس کی کسی مشکل کو آسان کرتا ہے یا پھر اس کی کسی لغزش یا غلطی کی ستر پوشی کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے اس کے ان اعمال ہی کی جنس سے بدلہ دے گا جن سے اس نے دوسروں کو نفع پنہنچایا ہے اور یہ کہ جب بندہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی اس کے مشکل کاموں میں مدد کرتا ہے تو اللہ بھی دنیا و آخرت میں اپنی توفیق کے ذریعہ اس کی مدد کرتا ہے اور یہ کہ جو نیکی کی کسی حسی راہ پر چلتا ہے جیسے مجالسِ ذکر یا باعمل علماء و محققین کی مجلس کی طرف علم سیکھنے کے لیے جاتا ہے یا پھر معنوی طور پر ایسے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے جو اسے اس علم تک لے جاتا ہے جیسے اس کا یاد کرنا، مطالعہ کرنا، غور و فکر کرنا اور اسے جو نفع بخش علوم سکھائے جائیں ان کا سیکھنا وغیرہ، جو بھی شخص خالص نیت کے ساتھ اس راہ پر گامزن ہوتا ہے اللہ تعالی اسے علم نافع کے حصول کی توفیق دے دیتا ہے جو اسے جنت تک لے جاتا ہے۔ اور یہ کہ جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں قرآن کریم کی تلاوت اور اسے پڑھنے پڑھانے کے لیے جمع ہوتے ہیں انہیں اللہ تعالی اطمئنان اور کلی رحمت سے نوازتا ہے، فرشتے ان کی مجلسوں میں حاضر ہوتے ہیں اور ملا اعلی میں اللہ کی طرف سے ان کی تعریف ہوتی ہے اور یہ کہ شرف کا دار و مدار صرف اور صرف نیک اعمال پر ہے نہ کہ حسب اور نسب پر۔