البارئ
(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے یہ آیت پڑھی: كنتم خير أمة أُخْرِجَتْ للناس۔ (سورہ آل عمران: 110)۔ ترجمہ: ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے‘‘۔ اور فرمایا: لوگوں کے لیے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو ان کی گردنوں میں زنجیریں ڈالے انہیں لے کر آتے ہیں یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ "اللہ عزّ و جلّ کو ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہےجو بیڑیوں میں جکڑے جنت میں داخل ہوتے ہیں"۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان لوگوں پر متعجب ہوتا ہے جنہیں پابندِ سلاسل جنت کے طرف لے جایا جائے گا۔ یہ وہ کافر لوگ ہیں جنہیں مسلمان دوران جہاد قیدی بنا لیتے ہیں اور بعدازاں وہ مسلمان ہو جاتے ہیں اور اس طرح سے یہ قید ان کے قبولِ اسلام اور دخولِ جنت کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ دوسری حدیث پہلی والی موقوف حدیث کی تفسیر اور وضاحت سمجھی جاتی ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول حدیث میں بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ دوسرے لوگوں کے حق میں سب سے بہتر لوگ ہیں کیونکہ وہ ان قیدیوں کی ہدایت کا سبب بنتے ہیں۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے کلام کے آغاز میں یہ آیت تلاوت کی کیونکہ یہ بات اس امت کے بہترین امت ہونے کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے۔