الرحيم
كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ“۔ ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں جو عظمت والا اور بُردْبار ہے، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں جو عرش عظیم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں جو آسمانوں، زمین اور عرش کریم کا رب ہے۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پریشانی اور غم صرف اللہ کی ذات دور کرتی ہے۔ خوف اور پریشانی کے عالم میں جب مومن بندہ ان کلمات کا وِرد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مامون کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کرنا مشکل کو آسان کرتا ہے اور تنگی کو دور کرتا ہے اور مشکلات کو ہلکا کرتا ہے۔ کسی بھی مشکل وقت میں اللہ کا ذکر کرنے سے وہ چیز آسان ہوجاتی ہے، ہر تنگی دور ہو جاتی ہے، مشقت کم ہوجاتی ہے، سختی ختم ہوجاتی ہے اور غم دور ہوجاتا ہے۔ اللہ کی صفت حلیم کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ مومن بندے کی پریشانی کا عام سبب نیکیوں میں کوتاہی اور حالات میں اللہ کی ذات سے غفلت ہوتی ہے۔ جو اس بات کی متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے معافی کی امید کی جائے جو کہ پریشانی میں کمی کا باعث ہے۔ شرح رياض الصالحين از محمد بن صالح بن محمد العثيمين: (ج6 /56)، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح از قاري: (ج4 /1677- تطريز رياض الصالحين (2 /288)۔