الحيي
كلمة (الحيي ّ) في اللغة صفة على وزن (فعيل) وهو من الاستحياء الذي...
عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرض الموت میں ارشاد فرمایا: "يہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا"۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی، تو آپ ﷺ کی قبر مبارک ظاہر کر کے بنائی جاتی؛ لیکن آپ ﷺ کو خدشہ تھا کہ کہیں اسے سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔
اللہ تعالی نے رسولوں کو توحید کے پرچار کے لیے بھیجا۔ رسولوں میں سے سب سے افضل رسول نبی کریم ﷺ ہیں، جو توحید کے پرچار اورشرک کے تمام وسائل کا سد باب کرنے کے بہت حریص تھے۔ آپ ﷺ کے مرض وفات میں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی آپ ﷺ کی دیکھ بھال کرتیں اور جب آپ ﷺ کی روح مبارک قبض ہوئی، تو اس وقت بھی وہ وہاں موجود تھیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا ذکر کرتی ہیں کہ اس مرض میں، جس سے آپ ﷺ جاں بر نہ ہو سکے، آپ ﷺ نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ کہیں آپ ﷺ کی قبر مبارک کو سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے اور پھر حالت یہ ہو کہ اللہ کی عبادت کی بجائے آپ ﷺ ہی کی عبادت شروع ہوجائے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاری پر، جنھوں ںے اپنے انبیا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔" آپ ﷺ ان کے لیے یا تو بد دعا فرما رہے ہیں یا یہ بتا رہے ہیں کہ ان پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ آپ ﷺ کی زندگی کے آخری ایام کی بات ہے اور آپ ﷺ کا یہ فرمان منسوخ نہیں ہوا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ یہود و نصاری کے عمل سے ڈرا رہے ہیں۔ چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کی مراد سمجھ گئے اور انھوں نے قبرمبارک عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں بنائی۔ نیز نہ تو صحابۂ کرام سے اور نہ ان کے بعد آنے والے سلف صالحین سے منقول ہے کہ کبھی وہ آپ ﷺ کی قبر مبارک کی طرف، وہاں نماز پڑھنے اور دعا کرنے کے ارادے سے گئے ہوں۔ جب سنت کی جگہ بدعت نے لے لی اور قبروں کی طرف سفر کرنے کا رواج ہو گیا، تب بھی اللہ تعالی نے اپنی نبی ﷺ کی قبر مبارک کو ان باتوں سے محفوظ رکھا، جو آپ ﷺ کو ناپسند تھیں۔ اللہ تعالی نے قبر مبارک کی تین مضبوط رکاوٹوں کے ذریعے سے حفاظت کی، جن سے گزرنے کا کسی بدعتی کو موقع نہیں ملتا۔