الحليم
كلمةُ (الحليم) في اللغة صفةٌ مشبَّهة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل)؛...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، ورنہ خاموش رہے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔“
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے کچھ جامع معاشرتی اصول روایت کر رہے ہیں: "مَنْ كَانَ يُؤمِنُ" یہ شرطیہ جملہ ہے، جس کا جواب "فَليَقُلْ خَيْرَاً أَو لِيَصْمُتْ" ہے۔ اس پیرایۂ بیان سے مقصود اچھی بات کہنے کی ترغیب دینا یا پھر چپ رہنے پر ابھارنا ہے۔ گویا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، تو اچھی بات کہو یا پھر چپ رہو۔ اللہ اور یومِ آخرت پرایمان کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ "فَلَيَقُلْ خَيرَاً" یعنی ایسی بات کہے، جس میں بذات خود چاہے کوئی اچھائی نہ ہو، تاہم اپنے ہم نشینوں کو خوش کرنے کے لیے کی جائے۔ یہ اس لیے اچھی بات شمار ہوتی ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے انسیت پیدا ہوتی ہے، وحشت دور ہوتی ہے اور الفت جنم لیتی ہے۔ "أو لِيَصْمُتْ" یعنی چپ رہے۔ "وَمَنْ كَانَ يُؤمِنُ باللهِ وَاليَومِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ" یعنی گھرکے پڑوس میں رہنے والے کااکرام کرے۔ ظاہری مفہوم کے اعتبار سے تو یہ لفظ بازار کےپڑوسی کو بھی شامل ہے، جیسے دکان کا ہمسایہ۔ تاہم پہلا معنی یعنی گھرکے پڑوس میں رہنے والا زیادہ راجح ہے۔ پڑوسی آپ کے جتنا قریب ہو گا، اتنا ہی اس کا حق زیادہ ہو گا۔ نبی ﷺنے "اکرام" کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا: "اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے"۔ آپ ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ اسے پیسے، صدقہ، لباس یا اس طرح کی اشیا دے۔ شریعت میں جس شے کا مطلق ذکر آئے اس کا معنی جاننے کے لیے عرف عام کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ چنانچہ "اکرام "کوئی معین رویہ نہیں ہوگا، بلکہ اس سے مراد وہ طرزِسلوک لیا جائے گا، جسے لوگ اکرام سمجھتے ہوں اور یہ مختلف ہم سایوں کے اعتبار سے مختلف ہو گا۔ آپ کے غریب ہم سائے کا اکرام ہو سکتا ہے کہ ایک روٹی کے دینے سے ہو جائے، جب کہ مال دار ہم سائے کے اکرام میں ایسا کرنا کافی نہیں ہوگا۔ بے حیثیت ہم سائے کے اکرام میں ادنی شے بھی کافی ہو سکتی ہے، جب کہ آپ کے معزز ہم سائے کے اکرام کے لیےزیادہ کی ضرورت ہو گی۔ "الجار" یعنی پڑوسی سے مراد کون ہے؟ آیا وہ شخص جو بالکل متصل ہو یا پھر بازار میں آپ کا شریک ہو یا پھر بالمقابل ہو یا کوئی اور؟ اس کے تعین میں بھی عرف عام کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے"۔ اس میں "الضیف" سے مراد آپ کے پاس قیام کرنے والا شخص ہے، جیسے کوئی مسافر آدمی جو آپ کےہاں ٹھہرے۔ ایسا شخص مہمان ہوتا ہے، جس کا حسب دستور اکرام کرنا واجب ہے۔ بعض علما فرماتے ہیں کہ مہمان نوازی اس وقت واجب ہوتی ہے، جب کوئی شخص بستیوں یا چھوٹے شہروں میں ہو۔ بڑے شہروں میں مہمان نوازی واجب نہیں ہے؛ کیوں کہ ان میں ہوٹل ہوتے ہیں، جن میں جایا جاسکتا ہے، جب کہ چھوٹی بستیوں میں انسان کو کسی ایسی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں وہ ٹھہر سکے۔ لیکن ظاہرکے اعتبار سے حدیث عام ہے کہ "اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے"۔ [شرح الأربعين النوويہ لمحمد بن صالح بن محمد العثيمين: (176- 178) ]