الوتر
كلمة (الوِتر) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، ومعناها الفرد،...
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے: «اللَّهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ في نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ». ترجمہ: اے اللہ! ہم تجھ کو ان کے سامنےکرتے ہیں اور تیرے ذریعے ان کی شرارتوں (برائیوں) سے پناہ مانگتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "اللهم إنا نجعلك في نحورهم"۔ یعنی ہم تجھے ان کے سامنے کرتے ہیں تاکہ تو انہیں ہم سے دور کرے اور ہمیں ان سے بچائے۔ یہاں "نَحر" (سینہ) کا ذکر بطور خاص کیا گیا کیونکہ یہ دفع کرنے میں اور جس کو دفع کیا جا رہا ہے اس پر قابو پانے میں سب سے تیز اور سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے، اور دشمن لڑائی کےلیے اٹھ کھڑے ہونے کے وقت اپنے سینے ہی سے سامنا کرتا ہے۔ یا پھر اس میں دشمنوں کو ذبح کرنے یا انہیں قتل کرنے کی نیک شگونی ہے۔ "ونعوذ بك من شرورهم"۔ (اور ہم تیرے ذریعے ان کی شرارتوں سے پناہ مانگتے ہیں) چنانچہ اس صورتِ حال میں اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ان کے شر سے کافی ہوجائے گا۔ مطلب یہ کہ ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ تو انہیں ہم سے روک دے، ان کے شر کو ہم سے ہٹا دے اور ان کے سلسلے میں ہمیں کافی ہو جا اور ہمارے اور ان کے مابین حائل ہوجا۔ یہ دو آسان لفظ ہیں جنہیں اگر کوئی شخص ایمانداری اور خلوص دل سے پڑھے گا تو اللہ تعالی اس کا دفاع کرے گا۔ اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔