البارئ
(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ایک مرتبہ ایک آدمی ایک لق و دق صحرا سے گزر رہا تھا کہ اس نے بادل سے ایک آواز سنی: فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر دو۔ پس بادل کا ایک ٹکڑا وہاں سے الگ ہوا اور ایک پتھریلی زمین پر پانی برسایا۔ پھر ایک نالی میں ساری نالیوں کا پانی جمع ہوکر آگے بڑھنے لگا۔ وہ صحرا نَورد اس پانی کے ساتھ چلتا رہا، تا آں کہ اس نے ایک آدمی کو دیکھا، جو اپنے باغ میں کھڑا اپنے کدال سے پانی ادھر اُدھر پھیر رہا تھا۔ اس نے اس باغبان سے کہا: اے اللہ کے بندے! تیرا نام کیا ہے؟ اس نے اپنا نام بتلایا، تو وہ وہی نام تھا، جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ باغبان نے اس نووارد سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا: بات یہ ہے کہ میں نے اس بدلی میں، جس کا پانی برس کر تیرے باغ میں آیا ہے، تیرا نام سنا تھا؛ کوئی کہہ رہا تھا: فلاں کے باغ کو سیراب کرو۔ اور وہ تیرا یہی نام تھا، جو تونے مجھے بتلایا ہے۔ ذرا مجھے بتلا کہ تو کیا عمل کرتا ہے؟ اس نے کہا: تو مجھ سے پوچھ ہی ڈالا، تو سن! میرے اس باغ سے جتنی پیداوار ہوتی ہے، میں اس کے تین حصے کرلیتا ہوں؛ ایک حصہ صدقہ کردیتا ہوں، ایک حصہ میں اور میرے بچے کھا لیتے ہیں اور تیسرا حصہ میں پھر (اگلی فصل تیار کرنے کے لیے) باغ میں لگا دیتا ہوں‘‘۔
ایک مرتبہ ایک آدمی ایک وسیع صحرا میں تھا کہ اس نے ایک بادل سے ایک آواز سنی: فلاں کے باغ کو سیراب کردو۔ پس بادل کا ایک ٹکڑا وہاں سے اپنے مقصد کے لیے الگ ہوا اور ایک کالے پتھروں والی زمین پر پانی برسایا۔ پھر ایک نالی میں ساری نالیوں کا پانی جمع ہوکرآگے بڑھنے لگا۔ وہ صحرا نَورد پانی کے پیچھے چلتا رہا۔ اس نے ایک آدمی دیکھا جو اپنے باغ میں کھڑا اپنی کدال سے پانی ادھر اُدھر پھیر رہا تھا۔ اس نے اس باغبان سے کہا: اے اللہ کے بندے! تیرا نام کیا ہے؟ اس نے اپنا نام بتلایا، تو وہ وہی نام تھا، جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ باغبان نے اس نووارد سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا: میں نے اس بدلی میں، جس کا پانی برس کر تیرے باغ میں آیا ہے، تیرا نام سنا تھا؛ کوئی کہہ رہا تھا: فلاں کے باغ کو سیراب کردو۔ وہ در اصل تیرا یہی نام تھا ۔ اب ذرا مجھے بتلا کہ تو کون سا خیر و بھلائی والا عمل کرتا ہے، جس کی بنا پر اس فضل و کرامت کے مستحق قرار پائے؟ اس نے کہا: تو مجھ سے پوچھ ہی ڈالا تو سن! میرے اس باغ سے جتنی پیداواراور پھل ہوتا ہے، میں اس کے تین حصے کرلیتا ہوں؛ ایک حصہ صدقہ کردیتا ہوں، ایک حصہ میں اور میرے بچے کھا لیتے ہیں، اور ایک حصہ باغ کی زراعت و آبادکاری میں لگا دیتا ہوں۔