القدير
كلمة (القدير) في اللغة صيغة مبالغة من القدرة، أو من التقدير،...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب تم میں سے کوئی شخص بستر پر ليٹنے كا اراده كرے تو پہلے اپنا بستر اپنی ازار کے اندورنی کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے (اس کی بے خبري میں) کیا چیز اس پر آ گئی ہے۔ پھر یہ دعا پڑھے: ”بِاسْمِكَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ“۔ ترجمہ: اے میرے پالنے والے! تیرے نام سے میں نے اپنا پہلو رکھا ہے اور تیرے ہی نام سے اٹھاؤں گا۔ اگر تو نے میری جان کو روک لیا تو اس پر رحم کرنا اور اگر چھوڑ دیا (زندگی باقی رکھی) تو اس کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تو صالحین کی حفاظت کرتا ہے۔
اس حدیث میں سوتے وقت کے اذکار کا بیان ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنی روح کو اپنے رب کے حوالے کر دیتا ہے جب کہ اس کے بس میں اس سلسلے میں کوئی طاقت و قوت نہیں رہتی۔ پس وہ اسے اس کے خالق کے سپرد کر دیتا ہے کہ وہی اس کی حفاظت کرے۔چنانچہ وہ پورے طور پر اسے اللہ کے حوالے کر دیتا ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ سونے اور جاگنے کے اوقات میں ذکر اور دعا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ انسان کے اعمال کا خاتمہ بھی اطاعت کے ساتھ ہو اور ان کا آغاز بھی اطاعت ہی کے ساتھ ہو۔ اس حدیث شریف میں نبی ﷺ اس بات کی وضاحت فرما رہے ہیں جس کا کرنا اور کہنا سوتے وقت بندے کے لیے مسنون ہے۔ نبی ﷺ نے عملی پہلو کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ "تم میں سے جب کوئی شخص سونے کے ارادے سے اپنے بستر پر جائے تو اسے جھاڑ لے"۔ آپ ﷺ نے ایسا اس لیے فرمایا کیوں کہ عرب لوگ بستر کو اسی حالت میں بچھا ہوا چھوڑ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ احتمال ہے کہ آدمی کے بستر کو چھوڑ جانے کے بعد اس میں موذی حشرات الارض گھس جائیں یا پھر وہ گرد و غبار وغیرہ سے آلودہ ہو جائے۔ اس لیے نبی ﷺ نے سونے سے قبل بستر کو جھاڑ لینے کا حکم دیا۔ پھر آپ ﷺ نے اس شے کی وضاحت فرمائی جس کے ساتھ جھاڑا اور صاف کیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "وہ اپنی ازار کے اندرونی حصے سے اپنے بستر کو جھاڑ لے۔" ازار سے مراد وہ کپڑا ہے جو بدن کے نچلے حصے میں پہنا جاتا ہے۔ مراد یہ کہ کپڑے کی اندرونی کنارے کی جانب سے وہ صاف کر لے کیونکہ اس سے جھاڑنا آسان ہوتا ہے۔ اور اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ ازار کے بیرونی حصے پر گندگی وغیرہ نہ لگے اوریہ کہ ایسا کرنے میں زیادہ ستر پوشی ہے۔ پھر آپ ﷺ بستر کو جھاڑنے اور اُس کی صفائی کی علت بیان کر رہے ہیں کہ "اسے نہیں معلوم کہ اس کے بعد اس بستر پر کون آیا رہا"۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت جسمانی حفاظت پر بھی زور دیتی ہے کیونکہ جسمانی سلامتی ہی سے دینی امور کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہاں تک تو عملی سنت اور اس کی علت کا بیان تھا۔ ثانیا: قولی سنت: پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ سونے والا کہے " باسمك ربي"۔ یعنی اللہ کے نام کے ساتھ جو بلند و برتر اور عظیم ہے، میں یہ ناتواں جسم بستر پر رکھتا ہوں۔ اس میں اس بات کے استحباب کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو ہر وقت ہمیشہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا چاہئے۔پھر کہے: " وضعت جنبي وبك أرفعه"۔ یعنی میں تیرے ذکر کے ساتھ اس جسم کو رکھتا اور اٹھاتا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ (یوں کہے) " إن أمسكتَ نفسي فارْحمها"۔ اس سے یہاں کنایۃً موت مراد ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان کہ "وإن أرسلتها" سے کنایۃً زندگی مراد ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا "فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين"۔ یعنی میری جان و روح کی ویسے ہی حفاظت کرنا جیسے تو اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اس سے تمام گناہوں، ہلاکت میں ڈالنے والی اور تمام بری اشیاء سے عمومی طور پر حفاظت مراد ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم اللہ (کے اوامر و نواہی) کی حفاظت کرتے رہو وہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ یہ عمومی حفاظت ہے۔ اسی لیے اسے نیکو کار لوگوں کے ساتھ خاص کیا۔ اللہ تعالی کی حفاظت نیکی ہی کے ساتھ حاصل ہوا کرتی ہے۔ اس شخص کو اللہ تعالی کی اپنے اولیاء کو دی جانے والی خصوصی حفاظت میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا جو اللہ تعالی کے حقوق میں تفریط سے کام لیتا ہے اور انہیں ضائع کرتا ہے۔ تاہم عمومی حفاظت اسے بھی حاصل رہتی ہے۔