العظيم
كلمة (عظيم) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وتعني اتصاف الشيء...
ابو ہُریرۃ - رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ’بیع عرایا‘ میں اجازت و رخصت عنایت فرما دی، (بایں صورت کہ تازہ کھجوروں کو خشک کے عوض اندازے سے فروخت کر لیا جائے) جب کہ یہ پانچ وسق کی مقدار سے کم ہوں، یا پھر پانچ وسق ہوں۔
’عرايا‘ جمع ہے ’عرية‘ کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کھجوریں پکنے کے وقت اس کے کھانے میں رغبت رکھے، لیکن اپنے فقر کی وجہ سے کھانے کی طاقت نہ رکھتا ہو، تاہم اس کے پاس خشک کھجوریں ہیں، چنانچہ وہ پانچ وسق خشک کھجوروں کے بدلے درخت پر لگی کھجوروں کا اندازہ کرکے خرید لے۔ چونکہ ’عرایا‘ جو کہ اصل میں حرام تھا لیکن ضرورت کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا گیا، اس لیے ضرورت کی مقدار پر اکتفاء کرنا چاہیے، اس لیے کہ صرف پانچ وسق یا اس سے کم میں جائز ہے۔ اس لیے کہ تر کھجوریں لذّت کے طور پر کھانا اس مقدار میں کافی ہو جاتا ہے۔ اصل حرمت ’ربا الفضل‘ کی ہے۔ آپ ﷺ سے جب تر کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے بیچنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ”کیا تر کھجور سوکھ جانے کے بعد (وزن میں) کم ہو جاتی ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو آپ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔