المجيب
كلمة (المجيب) في اللغة اسم فاعل من الفعل (أجاب يُجيب) وهو مأخوذ من...
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے راستے میں (جہاد کےلیے) ایک گھوڑا کسی کو سواری کے لیے دیا اور جسے دیا تھا، اس نے اس کی حالت بالکل ہی بگاڑ دی ۔ اس لیے میرا ارادہ ہوا کہ میں اسے واپس خرید لوں۔ میرا خیال تھا کہ وہ شخص اسے سستے داموں میں بیچ دے گا۔ اس کے متعلق میں نے نبی ﷺ سے جب پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے نہ خریدو اور اپنا صدقہ واپس نہ لو، اگرچہ وہ شخص تمھیں وہ گھوڑا ایک درہم میں ہی کیوں نہ دے۔ کیوںکہ کسی کا بطور ہبہ دی گئی شے کو واپس لینا ایسے ہی ہے، جیسے کوئی قے کر کے اسے چاٹ لے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جہاد فی سبیل اللہ میں کسی شخص کی معاونت کرتے ہوئے اسے ایک گھوڑا دیا؛ تاکہ وہ اس پر بیٹھ کر لڑسکے۔ اس شخص نے اس گھوڑے پر خرچ کرنے میں کوتاہی برتی اور اچھے انداز میں اس کی دیکھ بھال نہیں کی اور اس سے اتنا کام لیا کہ وہ نحیف اور کمزور ہو گیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ ا س سے وہ گھوڑا خرید لیں۔ انھوں نے کہ گھوڑا نحیف اور لاغر ہونے کی وجہ سے سستا میں مل جاۓ گا۔ تاہم نبی ﷺ سے مشورہ لینے سے پہلے انھوں نے اسے خریدنے کی بات نہیں چلائی؛ کیونکہ ان کے دل میں اس سلسلے میں کچھ کھٹکا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے انھیں اسے خریدنے سے منع فرما دیا، اگرچہ وہ کم قیمت پر ہی مل رہا ہو؛ کیوںکہ یہ اللہ کی راہ میں دی گئی شے تھی۔ (اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ) اس کے پیچھے نہ لگو اور نہ ہی اس سے کوئی واسطہ رکھو، تاکہ کہیں یہ نہ ہو کہ جسے وہ گھوڑا بطور ہبہ دیا گیا تھا، وہ اس کی قیمت میں تمھارے لیے کچھ کمی کر دے اور اس طرح تم اپنے دیے گئے صدقے کے کچھ حصے کو واپس لینے والے بن جاؤ۔ چوںکہ یہ شے تمھاری ملکیت سے نکل چکی ہے اور اس کی وجہ سے تمھارے گناہ معاف ہوئے اور اس نے تمھیں بہت سی برائیوں اور گندگیوں سے چھٹکارا دیا، اس لیے مناسب نہیں کہ وہ لوٹ کر دوبارہ تمھارے پاس آئے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے اسے خریدنے کو صدقہ دے کر واپس لینے کا نام دیا، حالاںکہ وہ اسے قیمت کے ساتھ خرید رہے تھے۔