البحث

عبارات مقترحة:

الصمد

كلمة (الصمد) في اللغة صفة من الفعل (صَمَدَ يصمُدُ) والمصدر منها:...

الرقيب

كلمة (الرقيب) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل) أي:...

الظاهر

هو اسمُ فاعل من (الظهور)، وهو اسمٌ ذاتي من أسماء الربِّ تبارك...

شکل بن حمید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی دعا سکھا دیجیے۔ آپ نے فرمایا کہ یوں کہا کرو: (اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي، وَمِنْ شَرِّ بَصَرِي، وَمِنْ شَرِّ لِسَانِي، وَمِنْ شَرِّ قَلْبِي، وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّي) ترجمہ: ”اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کان کے شر سے، اپنی آنکھ کے شر سے، اپنی زبان کے شر سے، اپنے دل کے شر سے اور اپنی شرم گاہ کے شر سے“۔

شرح الحديث :

اس حدیث میں ہے کہ شکل بن حمید رضی اللہ عنہ نبی کے پاس دنیا و آخرت کی بھلائی کی تلاش میں آتے ہیں۔ وہ نبی سے نہ تو اس دنیائے فانی کی کسی شے کا سوال کرتے ہیں اور نہ مٹھی بھر مال یا غلے کا ایک صاع مانگتے ہیں، بلکہ دعا کے بارے میں پوچھنے کے لیے آتے ہیں۔ وہ نبی سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ انھیں کوئی ایسی دعا سکھا دیں، جو انھیں ان کے دین و دنیا میں فائدہ دے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایسے ہی ہوا کرتے تھے۔ وہ اللہ تعالی کے فضل اور اس کی رضا کے جویا رہا کرتے تھے۔ نبی نے ان کی راہ نمائی اس عظیم الشان دعا کی طرف فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ یوں کہو: اللهم إني"۔ اس میں اللہ کے اس نام سے دعا مانگی جارہی ہے اور اس کی طرف متوجہ ہوا جا رہا ہے، جو اس کے تمام اسمائے حسنی کو جامع ہے، یعنی "اللہ"۔ " أعوذ بك من شر سمعي"۔ 'أعوذ' یعنی میں اللہ تعالی کے ذریعے سماعت کے شر سے اپنے آپ کو بچاتا ہوں۔ اس سے مراد وہ تمام حرام باتیں ہیں، جو انسان کے کان میں پڑتی ہیں، جیسے جھوٹی گواہی، کفر و بہتان پر مشتمل کلام اور دین کی تحقیر اور وہ ساری حرام باتیں جو انسان کی سماعت سے ٹکراتی ہیں۔ " ومن شر بصري" (آنکھ کے شر سے مراد یہ ہے کہ انسان) اسے حرام اشیا کو دیھکنے میں لگائے، جیسے حیا باختہ فلمیں اور برے مناظر۔ "ومن شر لساني" یعنی زبان سے نکلنے والی ہر حرام بات سے، جیسے جھوٹی گواہی، گالی گلوج، لعنت، دین اور دین دار لوگوں کی توہین و تحقیر، لایعنی باتوں میں لگنا اور سود مند باتوں کو چھوڑنا وغیرہ۔ "ومن شر قلبي": (دل کے شر سے مراد یہ ہے کہ انسان) دل کو اللہ کے ذکر کی بجائے دوسری اشیا سے آباد کرے یا پھر قلبی عبادات جیسے امید و بیم اور خوف و تعظیم کے ساتھ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کا رخ کرے یا پھر رب تعالی کے حضور جن قلبی عبادات کا بجا لانا اس پر واجب ہو انھیں ادا نہ کرے۔ "ومن شر منيي": یعنی شرم گاہ کے شر سے۔ مراد یہ کہ کسی ایسی شے میں واقع ہونے سے (اللہ کی پناہ مانگنا) جسے اللہ نے اس کے لیے حرام کیا ہو یا (پھر معنی یہ ہیں کہ) مجھے زنا کے مقدمات جیسے دیکھنا، چھونا، اس کی طرف چل کر جانا اور ارادہ کرنا وغیرہ سے محفوظ رکھ۔ اس دعا میں اعضا کی حفاظت کا سوال ہے، جو کہ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں۔ نبی نے انھیں یہاں اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اللہ تعالی سے اس نعمت کے شر سے پناہ مانگیں، نہ کہ خود اس نعمت سے، بایں طور کہ وہ یوں کہیں کہ میں اللہ سے اپنی سماعت کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ کیوں کہ یہ اعضا تو نعمتیں ہیں اور انہی کے ذریعے اللہ کی عبادت ہوتی ہے۔ یہ کوئی شر محض نہیں کہ ان سے پناہ مانگی جائے، بلکہ پناہ تو ان سے جنم لینے والے شر سے مانگی جائے گی۔ (واضح رہے کہ) ان کی حفاظت اس طرح سے ہوتی ہے کہ ان امور کی رعایت کی جائے جن کے لیے انھیں پیدا کیا گیا ہے، ان سے نہ کوئی معصیت کا کام کیا جائے اور نہ ان کے ذریعے سے کسی برائی کو فروغ دیا جائے۔ کیوں کہ روز قیامت انسان سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، اللہ تعالی کے اس فرمان کے بمصداق کہ : ﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴾ [الإسراء: 36] ترجمہ: ”جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو، اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیوں کہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے“۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية