البحث

عبارات مقترحة:

البارئ

(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...

الأعلى

كلمة (الأعلى) اسمُ تفضيل من العُلُوِّ، وهو الارتفاع، وهو اسمٌ من...

المحسن

كلمة (المحسن) في اللغة اسم فاعل من الإحسان، وهو إما بمعنى إحسان...

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب ہم (کسی بلندی پر) چڑھتے، تو «الله اكبر» کہتے اور جب (کسی نشیب میں) اترتے، تو «سبحان الله» کہتے تھے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کا لشکر جب وادی پر چڑھتا، تو تکبیر کہتا اور جب (کسی نشیب میں) اترتا، تو تسبیح پڑھتا۔

شرح الحديث :

اونچی جگہ چڑھتے ہوئے تکبیر کہنے کی مناسبت یہ ہے کہ بلندی اور اونچائی دلوں کو محبوب ہوتی ہے، اس لیے کہ اس میں بڑائی محسوس ہوتی ہے۔ چوں کہ انسان اپنے کو بڑا محسوس کرتا ہے، اس وجہ سے "اللہ اکبر" کہے۔ یعنی اپنی نسبت چھوٹے ہونے کی طرف کرے۔ جہاں تک اللہ کی کبریا کی بات ہے تو شریعت نے یہ حکم دیاہے کہ جو شخص بلندی کی طرف چڑھے، وہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کو یاد کرے اور دل میں رکھے کہ وہ ہر چیز سے بڑا ہے، پس اس کے شکر کے طور پر تکبیر کہے، تاکہ اس کے فضل میں اضافہ ہو۔ اور اُترتے وقت تسبیح کہنے کی مناسبت یہ ہے کہ نیچی جگہ تنگی کا باعث ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ شریعت نے اس میں تسبیح کا حکم دیا؛ کیوںکہ تسبیح فراخی کا سبب ہے۔ جیسا کہ یونس علیہ السلام کے قصے میں ہے کہ انھوں نے تاریکیوں میں تسبیح کہی، تو انھیں مصیبت سے نجات مل گئی۔ اسی طرح کسی جگہ سے اترنا بھی ایک طرح سے ذلت ہے، اس لیے "سبحان اللہ" کہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اسے ذلت اور پستی سے بچاۓ؛ کیوں کہ وہ پاک ذات ہر چیز کے اوپر ہے۔ اسی طرح جہاز کے اوپر چڑھتے وقت تکبیر کہنی چاہیے اور اس کے ہوائی اڈے پراُترتے وقت تسبیح کہنی چاہیے، اس لیے کہ ہوا میں چڑھنے اور اُترنے یا زمین پر چڑھنے اور اُترنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية