البحث

عبارات مقترحة:

الأول

(الأوَّل) كلمةٌ تدل على الترتيب، وهو اسمٌ من أسماء الله الحسنى،...

المصور

كلمة (المصور) في اللغة اسم فاعل من الفعل صوَّر ومضارعه يُصَوِّر،...

السلام

كلمة (السلام) في اللغة مصدر من الفعل (سَلِمَ يَسْلَمُ) وهي...

ابو زھیر عمارہ بن رؤیبہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے نماز پڑھے گا، وہ ہرگز جہنم کی آگ میں داخل نہ ہو گا۔" یعنی فجر اور عصر کی نمازیں۔ جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو بدر کامل تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے، جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمھیں اس کے دیدار میں مطلق تکلیف نہ ہوگی۔ لہٰذا اگر ہو سکے، تو سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ کرو۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: "پس آپ نے چاند کی طرف نظر اٹھائی، جو چودھویں رات کا تھا۔"

شرح الحديث :

"لن یلج" کے معنی "لن یدخل" ہیں، یعنی ہرگز داخل نہ ہوگا۔ "النار احد" یعنی اس کو کبھی عذاب نہیں دیا جائے گا یا یہ کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے گا، "جو آفتاب کے طلوع اور غروب سے قبل نماز ادا کرے" یعنی فجر اور عصر کی نمازوں کی ادائیگی پر ہمیشگی و مستقل مزاجی اختیار کرے؛ کیوں کہ صبح کے وقت انسان میٹھی نیند میں ہوتا ہے اور عصر کے وقت دن بھر کے کاموں ، اپنی تجارتی مصروفیات اور شام کے کھانے کی تیاری میں مشغول ہوتا ہے۔ اس عمل کی پابندی سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ بندۂ مومن کا نفس سستی و کاہلی سے پاک اور عبادت کی محبت سے سرشار ہے۔ اس عبادت کی بجا آوری کا لازمہ یہ ہے کہ وہ دیگر پانچوں نمازوں کو ادا کرتا ہی ہوگا، جب وہ ان دونوں نمازوں کی حفاظت کرلیتا ہے، تو بدرجۂ اولی دیگر نمازوں پر استقامت اختیار کرنے والا ہوگا۔ اور جس کا معاملہ یوں ہوگا، اس سے اسی بات کی توقع کی جاتی ہے کہ اس کی ذات سے کسی چھوٹے بڑے گناہ کا صدور نہ ہوگا، اگر کسی گناہ کا ارتکاب کر بھی بیٹھا، تو توبہ و استغفار کو اپناتا ہوگا۔ اس طرح یہ نمازیں اور توبہ و استغفار، اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق تمام چھوٹے گناہوں کا کفارہ ہوجائیں گے۔ لہٰذا وہ کبھی جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ واللہ اعلم دوسری روایت میں جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم، نبی کے ہم راہ تھے کہ آپ نے چودھویں رات کے کامل چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: "تم عن قریب اپنے پروردگار کا دیدار اسی طرح کروگے، جس طرح اس چاند کا مشاہدہ کر رہے ہو"۔ یعنی قیامت کے روز مؤمنین، جنت میں اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھیں گے، جس طرح دنیا میں چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، چاند کی طرح ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ جیسی کوئی چیز نہیں، بلکہ وہ سب سے زیادہ عظیم اور صاحب جلال ہے۔ یہاں ایک رؤیت کی دوسری رؤیت سے تشبیہ مقصود ہےکہ جس طرح ہم چودھویں رات کے چاند کا اپنی حقیقی آنکھوں سے اس طرح مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی رؤیت میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہوتا، اسی طرح ہم اپنے پروردگار عز وجل کا دیدار بغیر کسی شک و شبہ کے اس چاند کو اپنی حقیقی آنکھوں سے دیکھنے کی طرح کریں گے۔ ذہن نشیں رہے کہ اہل جنت کے نزدیک سب سے زیادہ لذیذ اور عمدہ ترین نعمت، اللہ تعالیٰ کا دیدار ہی ہوگا۔ کوئی دوسری شے اس کا متبادل و مساوی نہیں ہوسکتی۔ رسول اللہ نے اس عظیم نعمت "جس طرح ہم اس چودھویں رات کے چاند کا نظارہ کررہے ہیں، اسی طرح اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے" کا ذکر کرنے کے بعدفرمایا: " لہٰذا اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے، تو ایسا ضرور کرو" اس سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں کو کامل طریقے سے ادا کرو اور انھیں کامل طریقے سے ادا کرنے کی صورتوں میں سے ایک یہ ہے کہ انھیں باجماعت ادا کیا جائے اور ہو سکے تو اس معاملے میں سستی و کوتاہی کو غالب آنے نہ دیا جائے۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ نماز فجر اور نماز عصر کی محافظت اور ان کی ادائیگی میں استقامت کے سبب، اللہ عز وجل کا دیدار نصیب ہوگا۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية