اللطيف
كلمة (اللطيف) في اللغة صفة مشبهة مشتقة من اللُّطف، وهو الرفق،...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چَرائی ہوں۔اس پر آپ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کے عوض چَرایا کرتا تھا۔
تمام انبیاء نے اپنی زندگی میں بکریاں چرائی ہیں۔ ظاہرِ حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نبوت سے پہلے بکریاں چَرائی ہیں۔ اس کی حکمت کے بارے میں علماء نے فرماتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہے تاکہ اُن نبیوں کو لوگوں کی نگرانی کرنے اور ان کو نیکی کی طرف متوجہ کرنے کی مشق ہو۔ کیونکہ بکریوں کا چرواہا کبھی ان کو چراگاہ کی طرف لے جاتا ہے اور کبھی ایسے ہی چھوڑ دیتا ہے اور کبھی گھاٹ میں پانی پلانے لے جاتا ہے۔ نبی بھی اپنی امت کی رہنمائی کرتا ہے اور انہیں علم، ہدایت اور بصیرت ے عبارت خیر کی طرف متوجہ کرتا ہے اس چرواہے کی طرح جسے اچھی چراگاہ کے بارے میں علم ہوتا ہے اور اسے اس چیز کا بھی علم ہوتا ہے جس میں بکریوں کے لیے بہتری اور ان کے کھانے پینے کا سامان ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے بکریوں کو اس لیے چُنا گیا کہ بکری والے سکون، ٹھہراؤ اور اطمینان کے ساتھ متصف ہوتے ہیں برخلاف اونٹوں کے، اس لیے کہ اونٹوں والوں میں اکثر سختی اور شدت پائی جاتی ہے۔اس لیے کہ بذاتِ خود اونٹوں میں بھی سختی پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بکریاں چرانے کے لیے چُنا تاکہ ان میں ان کی عادت آ جائے اور لوگوں کی رہنمائی کرنے کی مشق ہو۔