الأعلى
كلمة (الأعلى) اسمُ تفضيل من العُلُوِّ، وهو الارتفاع، وهو اسمٌ من...
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص علم کی تلاش میں کسی راہ پر چل پڑے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے۔ بے شک فرشتے طالب علم کے عمل سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔ اور یقینا عالم کے لیے آسمانوں و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں، یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی۔ اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے، جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر۔ بے شک علما، انبیا کے وارث ہیں اور انبیا نے کسی کو دینار اور درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انھوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے یہ علم حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا۔"
طلب علم کے بعض فضائل کی توضیح و تشریح کے ضمن میں یہ حدیث وارد ہوئی ہے: ان فضائل میں سب سے پہلی فضیلت یہ ہے کہ جو شخص کسی راہ پر نکل پڑے اوراس راہ پر نکلنے کا مقصد محض طلب علم یا علم کی تحقیق ہو؛ چاہے وہ طالب علم گھر ہی میں کیوں نہ ہو، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے طلب علم کا بدلہ عنایت فرمائے گا۔ یعنی اس کے لیے جنت کی راہ آسان کردے گا۔ علمی راہ اپنانے میں جس طرح حسی راستہ شامل ہے، جس میں انسان اپنے قدموں کے ذریعے چل کر جاتا ہے، اسی طرح اس میں معنوی راستہ بھی شامل ہے۔ مثلا انسان علما کی مجالس اور کتابی ذخیروں سے علم حاصل کرے۔ کیوں کہ جو شخص کسی شرعی مسئلے کا حکم جاننے کی غرض سے کتابوں کی تحقیق و مراجعہ کرتا ہے یا کسی شیخ کی مجلس میں بیٹھ کر اس سے استفادہ کرتا ہے، وہ بھی طلب علم کی راہ طے کر رہا ہوتا ہے، گرچہ وہ بیٹھا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔ اس حدیث میں مذکور فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ آسمان و زمین کی ساری مخلوقات یہاں تک کہ سمندر میں موجود مچھلیاں اورخشکی میں پائے جانے والے چوپائے بھی ان علما کے حق میں مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں۔ طلب علم کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ اللہ عز وجل کی مکرم ومعزز مخلوق فرشتے بھی طالب علم کو علمی مشاغل میں مصروف دیکھتے ہوئے خوشی سے علم اور اہل علم کے روبرو اپنی فروتنی اور ان کی عظمت کے اعتراف میں اپنے پنکھ بچھا دیتے ہیں۔ اس حدیث میں نبی ﷺ کے ذکرکردہ فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ علما، انبیا کے وارث و جانشین ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح سے کہ انھیں انبیا سے علم اور عمل کی دولت وراثت میں حاصل ہوئی۔ نیز دعوت الی اللہ اور انسانوں کی اللہ اور اس کے دین کی طرف رہ نمائی کا فریضہ بھی انھیں وراثت میں ملا ہے۔ اس میں یہ فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ عابد پر عالم دین کو ایسے ہی امتیاز و برتری حاصل ہے، جیسے رات کے وقت کامل چاند کو دیگر سارے ستاروں پر حاصل ہوتی ہے؛ کیوں کہ عبادت کا نوراور اس کا کمال محض عابد تک محدود رہتا ہے، جس میں عابد کے علاوہ کوئی دوسرا شریک نہیں ہوسکتا اور اس نور کی حیثیت محض کسی ستارے جیسی ہے۔ جب کہ علم کانور اور اس کا کمال یہ ہے کہ وہ عالم کے علاوہ دیگر انسانوں کو بھی مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس بات کا بھی ذکر فرمایا کہ انبیا نے اپنے جانشینوں کے لیے دنیا کی کوئی بھی چیز وراثت میں نہ رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے دنیا میں درہم و دینار کی بجائے علم جیسی انتہائی عظیم میراث باقی رکھی۔ لہٰذا جس شخص نے اس علمی ورثے کو لے لیا، تو حقیقتا اس نے بھرپور انداز میں انبیا کی میراث پائی اور یہی حقیقی اور نفع بخش میراث ہے۔ یہاں مسلمان کو اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ فضیلت یافتہ عالم کی زندگی عمل سے اور عابد کی زندگی علم سے خالی ہو سکتی ہے؛ بلکہ اگر عابد کا دامن علم سے بھر جائے، تو وہ اپنے عمل میں قوی ہوجائے گا اور اگر عالم اپنے علم پر عمل پیرا ہوجائے، تو وہ اپنے علم میں قوی ہوگا۔ اسی بنا پر انہی علما کو انبیا کا وارث قرار دیا گیا، جو علم اور عمل کی اعلی خوبیوں کے حامل ہوں گے اور کمال (علم) اور تکمیل (اس کے مطابق عمل) کی فضیلتوں کو حرز جاں بنائے ہوئے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والوں اور اس کی راہ کے راہ گیروں کا یہی طریقہ و منہج رہا ہے۔