القيوم
كلمةُ (القَيُّوم) في اللغة صيغةُ مبالغة من القِيام، على وزنِ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاروایت ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس شخص نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی، میرا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ اور میرا بندہ جن چیزوں سے مجھ سے قریب ہوتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض قراردی ہیں۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو پھر (اس کے نتیجے میں) مَیں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں، اور اگر وہ کسی چیز سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں اور کسی چیز کے کرنے میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا تردد مومن کی روح قبض کرنے پر ہوتا ہے جو موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اسے غمگین کرنا نا پسند ہوتا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی مول لی اس کے خلاف میرا اعلان جنگ ہے"۔ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کے کسی ولی یعنی مومن و متقی اور اللہ کی شریعت کے پابند شخص کو تکلیف دی اور اس سے دشمنی کی، اسے میں بتاتا ہوں کہ میں اس سے جنگ کرنے والا ہوں کیونکہ میرے اولیا سے دشمنی کر کے اس نے مجھ سے جنگ مول لی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور میں نے جو چیزیں بندے پر فرض کی ہیں ان سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں ہے جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اس کے اولیاء سے دشمنی اس کے ساتھ جنگ ہے تو اس کے بعد اپنے ان اولیاء کا حال بیان کیا جن کے ساتھ دشمنی کرنا حرام ہے اور جن سے دوستی رکھنا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بیان کیا جس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ ولایت کی حقیقت قرب ہے اور دشمنی کی حقیقت دوری ہے۔ اللہ کے اولیاء وہ ہیں جو ان باتوں کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں جو انہیں اللہ کے قریب کرتی ہیں اور اللہ کے دشمن وہ لوگ ہیں جنہیں وہ ان کے ایسے اعمال کی وجہ سے اپنے آپ سے دور کر دیتا ہے جن کا تقاضا ہی یہ ہوتا ہے کہ انہیں دھتکار دیا جائے اور اللہ سے دور کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب اولیاء کی دو اقسام بیان کیں: پہلی قسم: جو فرائض ادا کر کے اس کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اس میں واجبات کو بجا لانا اور حرام امور کو چھوڑ دینا بھی شامل ہے۔کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے ان فرائض میں سے ہیں جنہیں اس نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔ دوسری قسم: جو فرائض کے بعد نوافل کے ساتھ اس کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اور جب بندہ مسلسل نوافل کے ذریعے قرب حاصل کرتا رہتا ہے تو اس کے نتیجے میں اللہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو پھر (اس کے نتیجے میں) میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے"۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص فرائض کے ذریعے اور بعد ازاں نوافل کے ساتھ اللہ کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اسے اللہ اپنی قربت عطا کرتا ہے اور اس کے ان چاروں اعضاء کو راستگی پر لگا دیتا ہے۔ اس کی سماعت کو درست کر دیتا ہے چنانچہ وہ وہی کچھ سنتا ہے جس سے اللہ راضی ہوتا ہے، اسی طرح اس کی بصارت کو بھی درست کر دیتا ہے چنانچہ وہ صرف اسی شے کی طرف دیکھتا ہے جس کی طرف دیکھنا اللہ کو پسند ہوتا ہے اور حرام کی طرف نہیں دیکھتا۔ اسی طرح اس کے ہاتھ کو بھی راستگی پر لگا دیتا ہے بایں طور کہ وہ شخص اپنے ہاتھ سے وہی کام کرتا ہے جس میں اللہ کی خوشنودی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کے پاؤں کو بھی راست رو کر دیتا ہے چنانچہ وہ اسی شے کی طرف چل کر جاتا ہے جس میں اللہ کی رضا ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ نے اسے راست روی دی ہوتی ہے اس لیے وہ صرف اسی کام میں لگتا ہے جس میں خیر ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کے اس قول سے یہی مراد ہے کہ: " میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے"۔ اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے کوئی حجت نہیں جو حلول اور اتحاد کے قائل ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بندے میں حلول کر لیا ہے یا اس کے ساتھ اس کا اتحاد ہو گیا ہے۔ اللہ تعالی ان باتوں سے بہت ہی بلند و بالا تر ہے۔ یہ تو کفر ہے۔ العیاذ باللہ۔ اوراللہ اوراس کے رسول اس سے بری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور اگر وہ کسی چیز سے میری پناہ چاہتا ہے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں"۔ یعنی اللہ کے اس محبوب و مقرَّب بندے کا اللہ کے ہاں خاص مقام ہے جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اگر وہ اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ اسے وہ شے دے اور اگر وہ کسی شے سے اللہ کی پناہ چاہے تو وہ اسے پناہ دے اور اگر اس سے دعا کرے تو وہ اس کی دعا کو قبول کرے۔ چنانچہ یہ شخص اللہ کی بارگاہ میں صاحب عزت ہونے کی وجہ سے مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اورکسی چیز کے کرنے میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا تردد مومن کی روح قبض کرنے پر ہوتا ہے جو موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اسے غمگین کرنا ناپسند ہوتا ہے"۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو موت دینے کا حتمی فیصلہ کر رکھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿كل نفس ذائقة الموت﴾۔(سورہ آل عمران: 185)ترجمہ: ’’ہر جاندارکو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ موت روح کے جسم کو چھوڑ جانے کا نام ہے اور ایسا بہت تکلیف کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب موت اتنی سخت چیز ہے اور اللہ نے اسے اپنے تمام بندوں کے لیے حتمی کر رکھا ہے اور ان پر اس کے آئے بغیر چارہ نہیں اور اللہ کو مومن کو تکلیف دینا اور اس کا دل دکھانا ناپسند ہے اس لیے اسے مومن کے حق میں تردد کا نام دیا گیا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں: تردد اللہ کے شایان شان ایک صفت ہے جس کی کیفیت معلوم نہیں ہو سکتی۔ تاہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا تردد ہمارے تردد کی طرح نہیں۔ اللہ کی طرف منسوب تردد انسانوں کے تردد سے مشابہ نہیں ہے بلکہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شایان شان تردد ہے جیسا کہ اس کی باقی تمام صفات ہیں۔