القهار
كلمة (القهّار) في اللغة صيغة مبالغة من القهر، ومعناه الإجبار،...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جارہے تھے۔ (رات ہونے پر) رات گزارنے کے لیے انھوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی اور اس میں داخل ہو گئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور غار کا منہ بند کر دیا۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمھیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں، سوا اس کے کہ تم اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک شخص نے اپنی دعا شروع کی کہ اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا؛ نہ اپنے بال بچوں کو اور نہ اپنے غلام وغیرہ کو۔ ایک دن مجھے درخت کی تلاش میں دیر ہو گئی اور میں ان کے پاس واپس نہ آ سکا، یہاں تک کہ وہ سو گئے۔ میں نے ان کے لیے دودھ دوہا، لیکن دیکھا کہ وہ سو چکے ہیں۔ مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ میں ان کو جگاؤں اور یہ کہ ان سے پہلے اپنے بال بچوں یا اپنے کسی غلام کو دودھ پلاؤں۔اس لیے میں ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔ بچے میرے قدموں پر بھوک سے بلبلا رہے تھے۔ اسی حالت میں صبح ہو گئی۔ اب میرے ماں باپ جاگے اور انھوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا۔ اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے۔ اس دعا کے نتیجے میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا، اتنا کہ اس سے وہ باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ پھر دوسرے نے دعا کی کہ اے اللہ ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی۔ جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ -ایک اور روایت میں ہے کہ میں اس سے اس حد تک محبت کرتا تھا، جتنا ایک مرد عورت سے کرسکتا ہے- میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہا، لیکن اس نے نہ مانا۔ یہاں تک کہ (ایک بار) قحط پڑ گیا اور وہ بھی اس سے متاثر ہوئی۔ وہ میرے پاس آئی۔ میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیے کہ وہ خلوت میں مجھے سے برا کام کرائے گی۔ چنانچہ وہ راضی ہو گئی، یہاں تک کہ جب میں اس پر قابو پا چکا -اور ایک اور روایت میں ہے کہ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے سامنے بیٹھ گیا- تو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈرو اور مُہر کو ناحق نہ توڑو! یہ سن کر میں اس سے ہٹ گیا، حالاں کہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی۔ میں نے اسے جو سونا دیا تھا، وہ بھی واپس نہ لیا۔ اے اللہ ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا، تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے۔ چنانچہ چٹان ذرا سی اور کھسکی، لیکن اب بھی وہ اس سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ تیسرے شخص نے دعا کرتے ہوئے کہا: اے اللہ ! میں نے چند مزدور اجرت پر لیے۔ پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی، مگر ایک مزدور ایسا نکلا کہ وہ اپنی مزدوری لیے بغیر ہی چلا گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا، یہاں تک کہ اس سے مال کی کثرت ہو گئی۔ کچھ عرصے کے بعد وہی مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے بندے ! مجھے میری مزدوری دے دے۔ میں نے کہا: یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے؛ اونٹ، گائے، بکری اور غلام، یہ سب تمھاری مزدوری ہی ہے۔ وہ کہنے لگا: اللہ کے بندے ! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا کہ میں مذاق نہیں کر رہا۔ چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لے لیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی۔ اے اللہ! اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے۔ چنانچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ سب باہر نکل کر چلے گئے۔
تین آدمی سفر پر نکلے۔ رات گزارنے کے لیے وہ ایک غار میں آ گئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھک کر نیچے آئی اور غار سے ان کے نکلنے کا راستہ بند کر دیا۔ وہ اسے ہٹا نہ سکے؛ کیوں کہ چٹان بہت بڑی تھی۔ انھوں نے سوچا کہ اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ سے دعا کی جائے۔ پہلے نے بیان کیا کہ اس کے بوڑھے ماں باپ تھے اور اس کے پاس بھیڑ بکریاں تھیں۔ وہ انھیں چرانے کے لیے لے کر نکل جاتا اور شام کو واپس آ جاتا۔ بکریوں کا دودھ دوہتا، اپنے بوڑھے ماں باپ کو پیش کرتا اور ان کے بعد باقی گھر والوں اور غلاموں کو دیتا۔ وہ کہتا ہے کہ ایک دفعہ وہ چرانے کے لیے درختوں کی تلاش میں ذرا دور نکل گیا۔ جب واپس لوٹا تو اس کی والدین سو چکے تھے۔ اس نے سوچا کہ کیا وہ اپنے ماں باپ سے پہلے گھر والوں اور غلاموں وغیرہ کو پلا دے یا پھر صبح ہونے تک وہ ان کا انتظار کرے؟۔ آخر اس نے یہی طے کیا کہ صبح ہونے تک ان کا انتظار کرے گا۔ چنانچہ اپنے والدین کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا۔ جب دونوں اٹھے اور انھوں نے دودھ پی لیا، تو اس نے اپنے گھر والوں اور غلاموں کو دودھ پلایا۔ (یہ عمل ذکر کرنے کے بعد) اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! اگر میں اپنے اس عمل میں مخلص تھا کہ میں نے اسے تیری رضا کے لیے کیا تھا، تو ہم پر پڑی یہ مصیبت دور کر دے۔ چنانچہ چٹان کچھ سرک گئی، تاہم اس سے وہ غار سے نکل نہیں سکتے تھے۔ دوسرے نے مکمل پاک بازی کو رب کے حضور بطور وسیلہ پیش کیا۔ وہ اس طرح کہ اس کی ایک چچا کی بیٹی تھی۔ وہ اس سے اس حد تک محبت کرتا تھا، جتنا مرد عورتوں سے کرسکتا ہے۔ اس نے اس سے زنا کا ارادہ کیا-اللہ کی پناہ- تاہم وہ تیار نہ ہوئی اور انکار کر دیا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ غربت کا شکار ہو گئی۔ مجبور ہو کر اپنے ساتھ زنا کرانے پر بھی راضی ہو گئی۔ حالاں کہ یہ جائر نہیں ہے، لیکن بہرحال ایسا ہی ہوا۔ وہ اس کے پاس آ گئی۔ اس نے اسے ایک سو بیس دینار دیے اس شرط پر کہ وہ اسے زنا کرنے دے گی۔ اس نے ضرورت اور حاجت کی وجہ سے اس کی ہامی بھر لی۔ جب وہ شخص بدکاری کرنے کے لیے ویسے بیٹھ گیا، جیسے آدمی اپنی بیوی کے ساتھ جماع کے وقت بیٹھتا ہے، تو اس نے اسے یہ عجیب اور بڑی بات کہی کہ اللہ سے ڈر اور مہر کو ناحق نہ توڑ !! یہ بات سن کر وہ اس کے پاس سے اٹھ گیا، حالاں کہ وہ اسے سب لوگوں سے زیادہ محبوب تھی۔ لیکن اس پر اللہ کا خوف طاری ہو گیا۔ چنانچہ اس نے جو سونا اسے دیا تھا، وہ بھی اسی کے پاس رہنے دیا۔ (اس عمل کو ذکر کرنے کے بعد اس شخص نے کہا کہ) اے اللہ! اگر میں نے یہ سب تیری رضا کے لیے کیا تھا، تو ہم سے یہ مصیبت ٹال دے، جس میں ہم گرفتار ہیں۔ اس پر وہ چٹان کچھ اور سرک گئی، تاہم وہ اب بھی اس سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ تیسرے آدمی نے امانت داری، اصلاح اور خلوص کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا۔ وہ ذکر کرتا ہے کہ اس نے کسی کام کے لیے کچھ مزدور اجرت پر لیے۔ اس نے سب کو ان کی اجرت دے دی، لیکن ایک آدمی اپنی اجرت لیے بغیر ہی چلا گیا۔ چنانچہ مستاجر نے اس مال کو کاروبار میں لگا دیا اور خرید و فروخت اور دوسرے ذرائع سے اسے بڑھاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ بہت بڑھ گیا اور اس سے بہت سے اونٹ، گائیں، بھیڑ بکریاں، غلام اور ڈھیر سارے اموال ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد مزدور اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے بندے! مجھے میری اجرت دے دو۔ اس نے اس سے کہا: جو کچھ تم اونٹ، گائیں، بھیڑ بکریاں اور غلام دیکھ رہے ہو، سب تمھارے ہیں۔ اس نے کہا: مجھ سے مذاق نہ کرو۔ میری اجرت جوتم پر باقی ہے بہت تھوڑی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ اونٹ، گائے، بکریاں اور غلام جنھیں میں دیکھ رہا ہوں، میری ملکیت ہیں؟ مجھ سے مذاق نہ کرو۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ: یہ سب کچھ واقعی تمھارا ہے۔ چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لے لیا اور اسے ہانک کر لے گیا اور اس میں سے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ (اس عمل کا ذکر کرنے کے بعد وہ کہنے لگا): اے اللہ! اگر میں نے یہ سب تیری وجہ سے کیا تھا، تو ہم سے یہ مصیبت دور کر دے۔ اس پر چٹان پوری طرح سرک گئی اور باہر نکلنے کا راستہ کھل گیا۔ چنانچہ وہ اس سے نکل کر چلے گئے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا، کیوں کہ انھوں نے اللہ کے حضور اپنے ایسے نیک اعمال پیش کر کے دعا کی تھی، جو انھوں نے خالصتا اللہ ہی کے لیے کیے تھے۔