القدوس
كلمة (قُدُّوس) في اللغة صيغة مبالغة من القداسة، ومعناها في...
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جس رات ان کی باری ہوتی، رسول اللہ ﷺ رات کے آخری پہر میں بقیع کے قبرستان کی طرف جاتے اور فرماتے: "السلامُ عليكم دارَ قومٍ مؤمنين، وأتَاكُم ما تُوعدُون، غداً مُؤجَّلُون، وإنا إنَّ شاءَ اللهُ بِكُم لاحِقُون، اللّهم اغْفِرْ لأهلِ بَقِيعِ الغَرْقَدِ"۔ ترجمہ: اس دیار (یعنی قبرستان) کے مؤمنو اور مسلمانو! تم پر سلام ہو۔ جس (موت) کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ پورا ہوچکا۔ تمھیں تمھارے اعمال کی جزا کل ملنے والی ہے اور اللہ نے چاہا تو ہم بھی عنقریب تم سے آملنے والے ہیں۔ یا اللہ! اہل بقیع غرقد کی مغفرت فرما۔ بریدہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ نبی ﷺ انھیں سکھاتے کہ جب ان میں سے کوئی قبرستان جائے، تو یوں کہے: "السلامُ عليكم أهلَ الديارِ من المؤمنين والمسلمين، وإنا إن شاءَ اللهُ بكم للاحقون، أسألُ اللهَ لنا ولكم العافيةَ" ترجمہ: اس دیار کے مومنو اور مسلمانو! تم پر سلام ہو۔ ہم بھی ان شاء اللہ عنقریب تم سے آ ملنے والے ہیں۔ میں اپنے اور تمھارے لیے عافیت طلب کرتا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا مدینے میں موجود کچھ قبروں کے پاس سے گزر ہوا۔ آپ ﷺ نے ان کی طرف اپنا چہرۂ مبارک کر کے فرمایا: "السلامُ عليكم يا أهلَ القبورِ، يغفرُ اللهُ لنا ولكم، أنتم سلفُنا ونحن بالأثرِ"۔ ترجمہ: اے قبروں والو! اللہ تعالی ہماری اور تمھاری مغفرت فرماۓ۔ تم ہم سے پہلے جا چکے اور ہم تمھارے بعد آنے والے ہیں۔
ان تمام احادیث میں قبروں کی زیارت کرنے، قبر والوں کو سلام کرنے، ان کے لیے دعا کرنے اور ان کے لیے رحم دلانہ جذبات کے اظہار کے مستحب ہونے کی دلیل ہے۔ چنانچہ ہمیں قبروں کی زیارت کرنی چاہیے، تاہم سوال یہ ہے کہ ہم قبر والوں کے فائدہ کے لیے قبروں پر جائیں گے یا پھر خود فائدہ اٹھانے کے لیے؟۔ اولا: ہم قبروں کی زیارت اہل قبور کے فائدے کے لیے کریں؛ بایں طورکہ مردوں کے لیے دعا کریں، نہ کہ ان سے دعا مانگیں اور اس لیے قبرستان جائیں تاکہ دلوں میں رقت پیدا ہو۔ جب بھی آپ کے دل پر کچھ غفلت کا پرتو آئے اور آپ کا دل دنیا کی زندگی سے مکدر ہو جائے، تو آپ کو چاہیے کہ آپ قبرستان کا رخ کریں اور ان لوگوں کے بارے سوچیں، جو کل تک آپ ہی کی طرح زمین پر چلتے پھرتے تھے، کھا پی رہے تھے اور دنیا سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اب وہ سب کہاں گئے؟ وہ اپنے گناہوں کے بدلے میں گروی رکھے ہوئے ہیں؛ انھیں صرف اپنے آگے بھیجے گئے اعمال ہی فائدہ دیں گے۔ ان لوگوں کے بارے میں سوچیں اور انھیں سلام کریں: السلام علیکم دار قوم مومنین۔ ظاہری معنی یہی ہے، واللہ اعلم کہ وہ سلام کا جواب دیتے ہیں؛ کیوںکہ آپ ﷺ ان پر خطاب کے صیغے سے سلام کرتے تھے۔ یعنی السلام علیکم کہتے تھے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مجرد دعا مراد ہو؛ چاہے وہ سنتے ہوں یا نہ سنتے ہوں، جواب دیتے ہوں یا جواب نہ دیتے ہوں۔