الوكيل
كلمة (الوكيل) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) بمعنى (مفعول) أي:...
جابر رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے جہاد کے ليے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نجد کا سفر کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہاں سے لوٹے، تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ لوٹے وہ لوگ دوپہر کے وقت گھنے خار دار درختوں کی ایک وادی میں پہونچے، رسول صلی اللہ عليہ وسلم یہاں اتر پڑے، (صحابہ بھی اتر گئے) اور تمام لوگ سایہ کی تلاش میں پھیل گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیکر کے ایک درخت کے نیچے فرو کش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار اس سے لٹکا دی، ہم لوگ تھوڑی دیر ہی سوئے تھے کہ یکایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں پکارنے لگے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اعرابی (بدو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے، آپ نے فرمایا: ‘‘اس شخص نے مجھ پر میری تلوار کھینچی تھی، جب کہ میں سویا ہوا تھا میں بیدار ہوا تو یہ اس کے ہاتھ میں سونتی ہوئی تھی، اس نے کہا: اب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا: اللہ’’ اور تین مرتبہ کہا کہ اللہ بچائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کو کوئی سرزنش نہیں کی اور بیٹھ گئے۔ (متفق علیہ)۔ ايک دوسری روايت ميں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں: جنگ ذات الرقاع میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے پس جب ہم ایک گھنے سائے والے درخت کے پاس آئے تو ہم نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ليے چھوڑ دیا، مشرکین میں سے ایک شخص آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درخت سے لٹکی ہوئی تلوار کھینچ لی اور کہا: تو مجھ سے ڈرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں، اس نے کہا: تجھے آج مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ!‘‘ اورصحیح ابو بکر اسماعیلی کی روايت میں اس طرح ہے: ديہاتی نے کہا: تجھ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: اللہ، راوی کہتے ہیں (اتنا سننا تھا) کہ کافر کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے تلوار اٹھالی اور فرمايا: "(تو بتلا) تجھے، مجھ سے کون بچاے گا؟" کافر کہنے لگا: ’’آپ بہتر تلوار پکڑنے والے ہوئیے (یعنی احسان کیجیے)، آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس سے پوچھا: کيا تو اس بات کی گواہی ديتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہيں اور ميں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے جواب ديا: نہيں، البتہ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ میں آپ سے لڑوں گا نہ آپ سے لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔‘‘ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کا راستہ چھوڑ ديا، وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور کہا: میں تمہارے یہاں سب سے اچھے انسانکے پاس سے آ رہا ہوں۔
اس حديث ميں جابر رضي اللہ عنہ بيان فرما رہے ہيں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا، اور يہ جنگ سيرت لکھنے والوں کے يہاں ذات الرقاع کے نام سے معروف ومشہور ہے۔ جنگ سے لوٹتے وقت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر ميں ایسی جگہ اترے، جہاں گھنے کانٹے دار درخت تھے، اور لوگ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے الگ ہوکر ایسی جگہ تلاشنے لگے جہاں سورج کی تپش سے بچ کر سایہ حاصل کر سکیں، اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ایک سایہ دار درخت کے نیچے فرو کش ہوئے جسے سمرۃ یعنی کیکر کہا جاتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار اسی درخت سے لٹکا دی اور سو گئے، صحابۂ کرام بھي سو گئے پھر جن لوگوں سے اس غزوہ میں جنگ ہوئی تھی انہیں ميں سے ايک ديہاتی چپکے سے آپ کے پاس آيا اور لوگوں کو اس کی بھنک بھی نہ پڑی، اس نے آپ کی تلوار نہایت خاموشی سے اٹھا لی، آپ صلی اللہ عليہ وسلم جاگ گئے اور (صحابۂ کرام سے) فرمایا: (جب ميں سو رہا تھا اس نے مجھ پر میری تلوار سونت لی، اور میں بیدار ہو گیا، تلوار اس کے ھاتھ میں تھی اور وہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم کو ڈراتے ہوے کہہ رہا تھا: ’’اگر ميں تم کو قتل کرنا چاہوں تو تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: ’’اللہ‘‘، اور يہ جملہ تین مرتبہ فرمايا، اس کا مطلب يہ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ مجھے تجھ سے بچالے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے يہ جملہ پورے اعتماد و توکل اور بھروسہ کے ساتھ کہا آپ کو اللہ کے وعدہ پر یقین تھا، کافر کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے تلوار اٹھالی اور فرمايا: ’’اب تجھے‘ مجھ سے کون بچاے گا؟‘‘ یعنی اگر میں تجھے قتل کرنا چاہوں۔ کافر کہنے لگا: (آپ اچھی طرح پکڑنے والے ہوئیے)، اس سے مراد عفو و در گذراور برائی کا بدلہ بھلائی سے دينے کے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: کيا تو اس بات کی گواہی ديتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہيں اور ميں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے جواب ديا: نہيں، ليکن اس نے آپ سے نہ لڑنے اور اسی طرح آپ سے جنگ کرنے والوں کا ساتھ نہ دینے کا وعدہ کيا، آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے اسے اس کی راہ پر چھوڑ ديا، اور وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس جاکر ان سے کہا: ميں آج (دنيا کے) سب سے افضل وبہتر شخص کے پاس سے آيا ہوں۔ اور حقيقت بھی يہی ہے کيوں کہ نبی صلی اللہ عليہ وسلم اخلاق و کردار میں سب سے بہتر تھے، اور اللہ نے بھی اپنے اس فرمان کے ذریعہ اس بات کی گواہی دی ہے: ’’اے نبی تم سب سے بڑے اور عمدہ اخلاق پر ہو۔‘‘