الخلاق
كلمةُ (خَلَّاقٍ) في اللغة هي صيغةُ مبالغة من (الخَلْقِ)، وهو...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص الله سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تواللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔'' میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا اس سے مراد موت کو ناپسند کرنا ہے؟ ہھر تو ہم سب ہی موت کوناپسند کرتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ مطلب نہیں بلکہ (وقتِ نزع) مومن کو جب اللہ کی رحمت، اس کی رضامندی اور اس کی جنت کی خوش خبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے، تو اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے۔ اور جب کافرکو (نزع کے وقت) اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔''
نبی ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص الله سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرتا ہے تواللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔'' عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: "اے اللہ کے رسول! کیا اس سے مراد موت کو ناپسند کرنا ہے؟ پھر تو ہم سب ہی موت کوناپسند کرتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: "یہ مراد نہیں۔" پھر نبی ﷺ نے بتایا کہ جب انسان اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اس کا مطلب يہ ہیکہ اللہ تعالی نے مومنوں کے لئے جنت میں جو عظیم اجر اور بے شمار انعامات تیار کر رکھے ہیں ان پر ایک مومن شخص کا ایمان ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اس کو پسند کرتا ہے اور دنیا اس کی نگاہوں میں ہیچ ہو جاتی ہے، وہ اس کی پروا نہیں کرتا; کیونکہ عنقریب وہ اس سے بہتر جہان کی طرف منتقل ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ اللہ سے ملاقات کو پسند کرنے لگتا ہے، بالخصوص موت کے وقت جب اسے اللہ کی رضامندی اور رحمت کی خوش خبری سنائی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالی سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور اس سے ملاقات کا مشتاق ہو جاتا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے۔ جب کہ اس کے بر عکس کافر شخص، العیاذ بااللہ، اسے جب اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضى کا مژدہ سنایا جاتا ہے تو وہ اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے. چنانچہ اللہ تعالی بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ اسی لیے جاں کنی کے بیان والی حدیث میں آیا ہے کہ کافر کی روح کو جب اللہ کے غضب اور ناراضی کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اس کے جسم میں دوڑنے اور بھاگنے لگتی ہے۔ اسی وجہ سے کافر کی روح اس کے جسم سے ایسے کھینچ کر نکالی جاتی ہے جیسے لوہے کی کانٹے دار سیخ کو بھیگے ہوئے اون سے نکالا جاتا ہے۔ یعنی وہ یہ ناپسند کرتا ہے کہ اس کی روح نکلے کیونکہ اسے برے انجام کی خبر دی جاتی ہے۔ العیاذ باللہ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: ”وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ “ ترجمہ: اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ﻇالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔ وہ اپنی جانوں کے تئیں کنجوسی کرتے ہیں العیاذ باللہ۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی جان نکلے لیکن فرشتے کہتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو۔ جب انہیں برے انجام کی خبر دی جاتی ہے تو ان کی روحیں جسم میں دوڑنے اور بھاگنے لگتی ہیں۔ اس پر فرشتے انہیں ایسے کھینچ کر نکالتے ہیں جیسے گیلے اون سے سیخ کو کھینچ کر نکالا جاتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ یہاں تک کہ وہ باہر نکل آتی ہے۔