البر
البِرُّ في اللغة معناه الإحسان، و(البَرُّ) صفةٌ منه، وهو اسمٌ من...
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ (کوئی مناسب) نرخ مقرر فرما دیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو“۔
آپ ﷺ کے زمانے میں اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہوگئیں، لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے قیمتیں متعین کر دیں، تو آپ نے فرمایا «إنَّ اللهَ هو المُسَعِّر القابضُ الباسطُ الرازقُ» یعنی اللہ تعالیٰ ہی چیزوں کو سستی اور مہنگی کرتا ہے، وہ جس پر چاہے رزق تنگ کرتا ہے اور جس پر چاہے فراخی کرتا ہے، یعنی جو قیمتیں مقرر کرتا ہے وہ اللہ سے اس چیز میں جھگڑا کرتا ہے جو اللہ چاہتا ہے اور گرانی و ارزانی سے متعلق لوگوں کے حقوق جو اللہ کے عطاء کردہ ہیں روکتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا «وإني لأرجو أن ألقى اللهَ وليس أحدٌ منكم يُطالِبُني بمظلمةٍ في دمٍ ولا مالٍ» اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قیمتیں مقرر کرنے سے یہ بات مانع ہے کہ کہیں میں لوگوں کے اموال میں ان پر ظلم نہ کر جاؤں، اس لیے سامان میں مالک کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا ظلم ہے۔ تاہم اگر تاجر وغیرہ چیز قصداً مہنگی کریں، تو انتظامیہ اور حاکم وقت کو عمومی قائدے ’’جلبِ منفعت اور دفعِ ضرر‘‘ کے پیشِ نظر بیچنے اور خریدنے والوں کے درمیان اشیاء کی منصفانہ قیمت متعین کرنے کا اختیار ہے۔ اور اگر گراں فروشی میں تاجروں کے اختیار اور حیلے سے نہ ہو، بلکہ طلب بڑھنے اور رسد گھٹنے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہو، تو حاکمِ وقت کو قیمت متعین کرنے کا اختیار نہیں۔ بلکہ لوگوں کو کُھلی طور پر معاملات کرنے چھوڑ دے، تاکہ اللہ ان میں سے بعض کو بعض کے رزق کا ذریعہ بنائے۔ لہٰذا اس کے پیش نظر تاجروں کے لیے مروجہ قیمتیں بڑھانے کی اجازت نہیں۔ یہی اس حدیث سے مقصود ہے۔